نظم: ’’موڑ‘‘

احبابِ گرامی ، سلام عرض ہے .
ایک نظم پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

’’موڑ‘‘
یہی تو موڑ تھا وہ
جہاں سے میں نے اور تم نے چُنے تھے اپنے رستے
تہیہ کر لیا تھا
کہ اب تنہا چلیں گے
نہ ہونگے اب کبھی محتاج ہَم اک دوسرے كے
پہنچ جائینگے اپنی منزلوں تک ہنستے ہنستے

مگر پِھر چلتے چلتے
مقام اب وہ بھی آیا ہے سفر میں
جہاں دونوں ہی کو خود سے گِلے ہیں
سفر کی دھوپ میں چہرہ جلا کر
غبارِ راہ سے دامن کو بھر کر
ہزاروں تجربوں کا بوجھ لے کر
ہَم آج اِس موڑ پر پِھر آ ملے ہیں

تقاضہ تو یہی حالات کا ہے
کہ میں اور تم یہاں سے ساتھ ہو لیں
مگر اب دِل میں بھی ہمت نہیں ہے
بدن بھی ٹوٹ کر شل ہو چکا ہے
نہیں اٹھتی نظر منزل کی جانب
نہیں بڑھتے قدم اب راستے پر
چلو اِس موڑ پر ہی ہَم سفر کو ختم کر دیں
اور اپنی بےبسی پر خون رو لیں

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 

صابرہ امین

لائبریرین
احبابِ گرامی ، سلام عرض ہے .
ایک نظم پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

’’موڑ‘‘
یہی تو موڑ تھا وہ
جہاں سے میں نے اور تم نے چُنے تھے اپنے رستے
تہیہ کر لیا تھا
کہ اب تنہا چلیں گے
نہ ہونگے اب کبھی محتاج ہَم اک دوسرے كے
پہنچ جائینگے اپنی منزلوں تک ہنستے ہنستے

مگر پِھر چلتے چلتے
مقام اب وہ بھی آیا ہے سفر میں
جہاں دونوں ہی کو خود سے گِلے ہیں
سفر کی دھوپ میں چہرہ جلا کر
غبارِ راہ سے دامن کو بھر کر
ہزاروں تجربوں کا بوجھ لے کر
ہَم آج اِس موڑ پر پِھر آ ملے ہیں

تقاضہ تو یہی حالات کا ہے
کہ میں اور تم یہاں سے ساتھ ہو لیں
بدن بھی ٹوٹ کر شل ہو چکا ہے
نہیں اٹھتی نظر منزل کی جانب
نہیں بڑھتے قدم اب راستے پر
چلو اِس موڑ پر ہی ہَم سفر کو ختم کر دیں
اور اپنی بےبسی پر خون رو لیں

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
خوبصورت نظم۔ ۔ کتنے سادہ الفاظ اور کتنا بھرپور اظہار ۔ ۔ بہت سی داد قبول کیجیے۔
ویسے شاعراس نظم میں تھوڑی ہمت دکھا دیتے تو اچھا تھا۔:D مگر پھر اتنی اچھی نظم شاید تخلیق نہ ہو پاتی۔ :)
 
خوبصورت نظم سر!
آپ کی دی ہوئی آزادی سے فائدہ اُٹھا کر سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں
مگر اب دِل میں بھی ہمت نہیں ہے
دل میں محبت / تمنا / خواہش نہیں ہے یا ہمت نہیں ہے؟
 

یاسر شاہ

محفلین
واہ علوی بھائی عمدہ ۔
آپ کی کیفیات کی خوب ترجمان ہے یہ نظم ۔
ساحر کی نظم: خوبصورت موڑ : یاد آگئی یہ نظم پڑھ کر ۔
:چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں:

تکنیکی لحاظ سے یہ فرمائیے کہ آزاد نظم میں بھی افاعیل کا تعین کر کے ان کی پابندی کرنی ہوتی ہے مگر آپ نے نظم کی ابتدا میں مفاعیلن فعولن کا تعین کیا ہے اور بعد میں مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن اراکین بھی لے آئے ہیں کیا ایسا کرنے کی کوئی مثال ملتی ہے آزاد نظم کہنے والوں میں ؟
 
خوبصورت نظم۔ ۔ کتنے سادہ الفاظ اور کتنا بھرپور اظہار ۔ ۔ بہت سی داد قبول کیجیے۔
صابرہ بہن ، پذیرائی كے لیے ممنون ہوں . جزاک اللہ !
ویسے شاعراس نظم میں تھوڑی ہمت دکھا دیتے تو اچھا تھا۔:D مگر پھر اتنی اچھی نظم شاید تخلیق نہ ہو پاتی۔ :)
نظم کا تو پتا نہیں ، لیکن جو گزری ہے ، اس كے بعد شاعر كے لیے حوصلہ دکھانا تقریباً ناممکن تھا . :)
 
خوبصورت نظم سر!
آپ کی دی ہوئی آزادی سے فائدہ اُٹھا کر سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں
مگر اب دِل میں بھی ہمت نہیں ہے
دل میں محبت / تمنا / خواہش نہیں ہے یا ہمت نہیں ہے؟
خورشید صاحب ، ستائش کا شکریہ ! دِل میں خواہش تو شاید اب بھی ہے ، لیکن ہمت نہیں ہے .
 
واہ علوی بھائی عمدہ ۔
آپ کی کیفیات کی خوب ترجمان ہے یہ نظم ۔
ساحر کی نظم: خوبصورت موڑ : یاد آگئی یہ نظم پڑھ کر ۔
:چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں:

تکنیکی لحاظ سے یہ فرمائیے کہ آزاد نظم میں بھی افاعیل کا تعین کر کے ان کی پابندی کرنی ہوتی ہے مگر آپ نے نظم کی ابتدا میں مفاعیلن فعولن کا تعین کیا ہے اور بعد میں مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن اراکین بھی لے آئے ہیں کیا ایسا کرنے کی کوئی مثال ملتی ہے آزاد نظم کہنے والوں میں ؟
یاسر بھائی ، حوصلہ افزائی کا شکریہ ! جزاک اللہ . آزاد نظم کی تخلیق میں پابند نظم اور غزل کی معروف بحور كے اركان میں کمی اور بیشی كے میرے علم میں کوئی سخت اصول نہیں ہیں . اگر آپ کو اركان کا اس طرح کا استعمال دیکھنا ہے جیسا ناچیز نے کیا ہے تو افتخار عارف کی ’ابھی کچھ دن لگیں گے‘ اور جاوید اختر کی ’نیا حکمنامہ‘ ملاحظہ فرمائیے .
 

ارشد رشید

محفلین
واہ علوی بھائی عمدہ ۔
آپ کی کیفیات کی خوب ترجمان ہے یہ نظم ۔
ساحر کی نظم: خوبصورت موڑ : یاد آگئی یہ نظم پڑھ کر ۔
:چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں:

تکنیکی لحاظ سے یہ فرمائیے کہ آزاد نظم میں بھی افاعیل کا تعین کر کے ان کی پابندی کرنی ہوتی ہے مگر آپ نے نظم کی ابتدا میں مفاعیلن فعولن کا تعین کیا ہے اور بعد میں مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن اراکین بھی لے آئے ہیں کیا ایسا کرنے کی کوئی مثال ملتی ہے آزاد نظم کہنے والوں میں ؟
جناب یہ بحر ہے ہزج محذوف - اسکا مثمن آہنگ ہے مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
اب آزاد نظم میں شاعر کو یہ آزادی ہے کہ وہ پورا وزن استعمال کرے یا اس کا کوئئ حصہ - لہذا اس نظم کا کوئ مصرع صرف
مفاعیلن فَعُولن ہوسکتا ہے یا پھر مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن یا پھر پورا وزن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن بھی ہو سکتا ہے
حتٰی کے صرف مفاعیلن بھی ایک مصرعہ ہو سکتا ہے -
یہ نظم تکنیکی اعتبار سے بالکل درست ہے -
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ گرامی ، سلام عرض ہے .
ایک نظم پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

’’موڑ‘‘
یہی تو موڑ تھا وہ
جہاں سے میں نے اور تم نے چُنے تھے اپنے رستے
تہیہ کر لیا تھا
کہ اب تنہا چلیں گے
نہ ہونگے اب کبھی محتاج ہَم اک دوسرے كے
پہنچ جائینگے اپنی منزلوں تک ہنستے ہنستے

مگر پِھر چلتے چلتے
مقام اب وہ بھی آیا ہے سفر میں
جہاں دونوں ہی کو خود سے گِلے ہیں
سفر کی دھوپ میں چہرہ جلا کر
غبارِ راہ سے دامن کو بھر کر
ہزاروں تجربوں کا بوجھ لے کر
ہَم آج اِس موڑ پر پِھر آ ملے ہیں

تقاضہ تو یہی حالات کا ہے
کہ میں اور تم یہاں سے ساتھ ہو لیں
مگر اب دِل میں بھی ہمت نہیں ہے
بدن بھی ٹوٹ کر شل ہو چکا ہے
نہیں اٹھتی نظر منزل کی جانب
نہیں بڑھتے قدم اب راستے پر
چلو اِس موڑ پر ہی ہَم سفر کو ختم کر دیں
اور اپنی بےبسی پر خون رو لیں

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
بہت خوب ، عرفان علوی عرفان بھائی! خوب کاوش ہے! بہت داد!
میں سمجھتا ہوں کہ ہر تخلیقی کاوش قابلِ ستائش ہوتی ہے اور ہر وہ لفظ جو سچائی پر مبنی ہو معتبر ہوتا ہے ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ آزاد نظم آپ کے شایانِ شان نظر نہیں آئی۔ آپ کی کہنہ مشقی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا تو یہ نظم مجھے متاثر نہ کرسکی۔ یہ میری ناقص اور ادنیٰ رائے ہے۔ میں "نثری نظم" کا تو بوجوہ سرے سے قائل ہی نہیں ہوں لیکن آزاد نظم کے بارے میں بھی میرا نقطۂ نظر تقریباً اُنہی وجوہات پر مبنی ہے۔میری ناقص رائے میں روایتی پابندیوں سے باہر نکلنے کا جواز صرف اور صرف تبھی پیدا کیا جاسکتا ہے جب کلام میں جدتِ مضمون اور ندرتِ بیان کے عناصر موجود ہوں ۔ اظہارِ خیال کے کینوس کو وسیع کرنے کی خاطر جب شاعر اپنے آپ کو قافیہ ردیف اور بحر کی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کینوس پر جو تصویر بنے وہ بہت ہی خوبصورت ہو۔ ورنہ پھر عروضی پابندیوں سے خود کو آزاد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اِلّا یہ کہ سہل پسندی مطلوب ہو۔
میری رائے میں آزاد نظم میں جو مصرع گھڑے جائیں ان میں بھی پابند شاعر ی کی طرح آہنگ ، شعریت اور غنائیت ہونی چاہیے۔ یا یوں کہیے کہ یہ عناصر کسی حد تک نظم کے بیشتر مصرعوں میں ہونا چاہئیں۔ شعری ضرورت کے تحت کچھ مصرعے اگر بالکل مختصر (یعنی یک رکنی یا دو رکنی وغیرہ) اور سپاٹ سے رکھنا پڑیں تو مضائقہ نہیں لیکن مجموعی طور پر نظم کو اپنے آہنگ اور بنت میں نثر سے واضح طور پر ممتاز ہونا چاہیے۔ میں اس نظم کی بنت کو دیکھتا ہوں تو آہنگ اور غنائیت کے عناصر کم نظر آتے ہیں۔ مصرعوں کی بنت اور بہاؤ اپنے مجموعی تاثر میں ایک نثری پیراگراف سے بہت قریب ہیں۔ آزاد نظم کی متعدد کامیاب اور خوبصورت مثالیں فیض اور افتخار عارف کے ہاں موجود ہیں اور ان کا تنقیدی جائزہ ہم سب کو بہت کچھ سمجھا اور سکھا سکتا ہے ۔ بعض آزاد نظمیں تو اتنی مؤثر اور کامیاب ہیں کہ ایک اچھی غزل کی طرح ایک دفعہ پڑھنے پر یاد ہوجاتی ہیں اور ان کی شعریت و غنائیت تادیر ذہن میں منقش رہتے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ کہ عروضی پابندیوں سے آزادی کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ قیمت جدتِ مضمون ، منفرد شاعرانہ پیرائے ، خوبصورت لفظیات ، مصرعوں کی ہم آہنگ بنت اور بے عیب روانی کی صورت میں ادا کی جاسکتی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وزن پر عبور رکھنے والا کوئی بھی شاعر کسی بھی نثر پارے کو ذرا سی کوشش سے آزاد "نظم" میں ڈھال سکتا ہے۔ لیکن ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر منظوم کلام شعر کے درجے پر نہیں پہنچتا۔ منظومیت شعری ڈھانچے کی بنیاد اور وجہ ضرور ہے لیکن شعر کو شعریت کے درجے پر پہنچنے کے لیے اس کے علاوہ بھی کئی عوامل درکار ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں آزاد نظم کے شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان عوامل کا اپنی نظم میں ممکنہ حد تک استعمال کرے۔ قافیہ ردیف اور بحر کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد نہ صرف اس کے پاس فکر و نظر کے لیے بہت وقت ہوتا ہے بلکہ الفاظ ، تراکیب اور مختلف پیرایوں سے تجربات کرنے کی بھی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ گستاخی معاف ، میں پھر یہی کہوں گا کہ میری ناقص رائے میں روایتی پابندیوں سے باہر نکلنے کا جواز صرف اور صرف تبھی پیدا کیا جاسکتا ہے جب کلام میں جدتِ مضمون اور ندرتِ بیان کے عناصر موجود ہوں ۔ بہرحال ، یہ میری ذاتی اور ناقص رائے ہے ورنہ تو آزاد نظم کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے اس کی نسبت آپ کی نظم بدرجہابہتر ہے۔ عرفان بھائی ، اگر کچھ ناگوار گزرا ہو تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں اور معافی کا طلبگار ہوں ۔ امید ہے کہ آپ درگزر سے کام لیں گے ۔
 
بہت خوب ، عرفان علوی عرفان بھائی! خوب کاوش ہے! بہت داد!
میں سمجھتا ہوں کہ ہر تخلیقی کاوش قابلِ ستائش ہوتی ہے اور ہر وہ لفظ جو سچائی پر مبنی ہو معتبر ہوتا ہے ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ آزاد نظم آپ کے شایانِ شان نظر نہیں آئی۔ آپ کی کہنہ مشقی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا تو یہ نظم مجھے متاثر نہ کرسکی۔ یہ میری ناقص اور ادنیٰ رائے ہے۔ میں "نثری نظم" کا تو بوجوہ سرے سے قائل ہی نہیں ہوں لیکن آزاد نظم کے بارے میں بھی میرا نقطۂ نظر تقریباً اُنہی وجوہات پر مبنی ہے۔میری ناقص رائے میں روایتی پابندیوں سے باہر نکلنے کا جواز صرف اور صرف تبھی پیدا کیا جاسکتا ہے جب کلام میں جدتِ مضمون اور ندرتِ بیان کے عناصر موجود ہوں ۔ اظہارِ خیال کے کینوس کو وسیع کرنے کی خاطر جب شاعر اپنے آپ کو قافیہ ردیف اور بحر کی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے تو پھر لازم ہے کہ اس کینوس پر جو تصویر بنے وہ بہت ہی خوبصورت ہو۔ ورنہ پھر عروضی پابندیوں سے خود کو آزاد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اِلّا یہ کہ سہل پسندی مطلوب ہو۔
میری رائے میں آزاد نظم میں جو مصرع گھڑے جائیں ان میں بھی پابند شاعر ی کی طرح آہنگ ، شعریت اور غنائیت ہونی چاہیے۔ یا یوں کہیے کہ یہ عناصر کسی حد تک نظم کے بیشتر مصرعوں میں ہونا چاہئیں۔ شعری ضرورت کے تحت کچھ مصرعے اگر بالکل مختصر (یعنی یک رکنی یا دو رکنی وغیرہ) اور سپاٹ سے رکھنا پڑیں تو مضائقہ نہیں لیکن مجموعی طور پر نظم کو اپنے آہنگ اور بنت میں نثر سے واضح طور پر ممتاز ہونا چاہیے۔ میں اس نظم کی بنت کو دیکھتا ہوں تو آہنگ اور غنائیت کے عناصر کم نظر آتے ہیں۔ مصرعوں کی بنت اور بہاؤ اپنے مجموعی تاثر میں ایک نثری پیراگراف سے بہت قریب ہیں۔ آزاد نظم کی متعدد کامیاب اور خوبصورت مثالیں فیض اور افتخار عارف کے ہاں موجود ہیں اور ان کا تنقیدی جائزہ ہم سب کو بہت کچھ سمجھا اور سکھا سکتا ہے ۔ بعض آزاد نظمیں تو اتنی مؤثر اور کامیاب ہیں کہ ایک اچھی غزل کی طرح ایک دفعہ پڑھنے پر یاد ہوجاتی ہیں اور ان کی شعریت و غنائیت تادیر ذہن میں منقش رہتے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ کہ عروضی پابندیوں سے آزادی کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ قیمت جدتِ مضمون ، منفرد شاعرانہ پیرائے ، خوبصورت لفظیات ، مصرعوں کی ہم آہنگ بنت اور بے عیب روانی کی صورت میں ادا کی جاسکتی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وزن پر عبور رکھنے والا کوئی بھی شاعر کسی بھی نثر پارے کو ذرا سی کوشش سے آزاد "نظم" میں ڈھال سکتا ہے۔ لیکن ہم اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر منظوم کلام شعر کے درجے پر نہیں پہنچتا۔ منظومیت شعری ڈھانچے کی بنیاد اور وجہ ضرور ہے لیکن شعر کو شعریت کے درجے پر پہنچنے کے لیے اس کے علاوہ بھی کئی عوامل درکار ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں آزاد نظم کے شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان عوامل کا اپنی نظم میں ممکنہ حد تک استعمال کرے۔ قافیہ ردیف اور بحر کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد نہ صرف اس کے پاس فکر و نظر کے لیے بہت وقت ہوتا ہے بلکہ الفاظ ، تراکیب اور مختلف پیرایوں سے تجربات کرنے کی بھی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ گستاخی معاف ، میں پھر یہی کہوں گا کہ میری ناقص رائے میں روایتی پابندیوں سے باہر نکلنے کا جواز صرف اور صرف تبھی پیدا کیا جاسکتا ہے جب کلام میں جدتِ مضمون اور ندرتِ بیان کے عناصر موجود ہوں ۔ بہرحال ، یہ میری ذاتی اور ناقص رائے ہے ورنہ تو آزاد نظم کے نام پر جو کچھ لکھا جارہا ہے اس کی نسبت آپ کی نظم بدرجہابہتر ہے۔ عرفان بھائی ، اگر کچھ ناگوار گزرا ہو تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں اور معافی کا طلبگار ہوں ۔ امید ہے کہ آپ درگزر سے کام لیں گے ۔
ظہیر بھائی ، داد اور رائے کا بہت شکریہ ! احباب کی ، خاص طور پر آپ جیسے قابل احباب کی ، رائے كے ناگوار گزرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا . مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آزاد نظم کا میرا تنقیدی جائزہ اور تخلیقی تجربہ بہت محدود ہے . آئندہ اور بہتر کہنے کی کوشش کروں گا ، انشاء اللہ .
 
Top