نظم : کشمیر : از : محمد حفیظ الرحمٰن

کشمیر ( نظم )
از : محمد حفیظ الرحمٰن

دِل خون ہوا جاتا ہے یوں شدتِ غم سے
ہو جوئے لہو جیسے رواں کوہِ الم سے

کشمیر کے زخموں پہ نمک ڈالنے والو
دِل جیتو گے تم کیسے بھلا ظلم و ستم سے

آزادی ہے کشمیر کا مقسوم بلا شک
قابض نہیں رہ سکتے ہو تم جاہ و حشم سے

پرچم وطنِ پاک کا ہے سبز ہلالی
کشمیرکو سجنا ہے اِسی پاک عَلم سے

وانی نہ تھا بس ایک ، کہ ہم سب ہی ہیں وانی
منزل کا پتہ لیں گے اسی نقشِ قدم سے

کشمیر کے زخموں کا مداوا بھی کریں گے
ہر زخم کا بدلہ بھی چکایئں گے ، قسم سے

ہیں آج اگر دور تو کچھ غم نہیں یارو
جلد آئے گا وہ دِن کہ وہ مل جایئں گے ہم سے

یارب یونہی بستا رہے دِل میں مرے کشمیر
لکھتا رہوں نغمے یونہی میں اپنے قلم سے

 

ربیع م

محفلین
وانی نہ تھا بس ایک ، کہ ہم سب ہی ہیں وانی
منزل کا پتہ لیں گے اسی نقشِ قدم سے

آج پور ا کشمیر اس کی عملی تفسیر بنا ہے چالیس سے زیادہ روز بیت چکے ہیں انڈین مظالم تھمنے کا نام نہیں لیتے اور کشمیریوں کی استقامت بھی پہاڑوں کو مات دے رہی ہے۔

ہیں آج اگر دور تو کچھ غم نہیں یارو
جلد آئے گا وہ دِن کہ وہ مل جایئں گے ہم سے

بہت جلد ان شاء اللہ
 
Top