نظم: "ڑ" حرفِ تہجی

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
"ڑ" حرفِ تہجی ہے کیسا خدایا
اثر جس پہ کوئی نہ بیم و رجا کا

نہ تنہائی کا خوف اُس کو ہو لاحق
نہ خود پر بھروسہ، نہ امید برحق

خیالوں میں ہر دم پڑا مست ہے یہ
کہ بے گانہِ فردا، بدمست ہے یہ

کوئی جو گھسیٹے، گھسٹتا ہی جائے
نہ تذلیل پر اپنی آنسو بہائے

کسی انجمن میں یہ جانا بھی چاہے
مگر اپنے دم پر کہیں جا نہ پائے

سکھا دے اب اس کو ہنر رہبری کا
دکھا دے اسے راستہ زندگی کا
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ ڑ ہی کیوں، ہر حرف اپنی ذات میں انجمن ہے!
ڑ کا اسی نظم میں بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ کسی کی رہبری کرنے کے شرف سے محروم ہے یعنی کہ اس سے کوئی بھی لفظ شروع نہیں ہوتا جبکہ باقی تمام حروف ایسی لاچاری سے محفوظ ہیں۔
غزل کے فارمیٹ کے اشعار ہیں، اس لئے اس لحاظ سے اس میں ایطا کا عیب ہے
باقی اشعار درست ہیں
کیا اس طرح سے درست ہو جائے گا؟

خیالوں میں ہر دم پڑا مست ہے یہ
کہ بے گانہِ فردا و ہست ہے یہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کہ بے گانہِ فردا و ہست ہے یہ
مفہوم کے لحاظ سے غلط ہے، ہست کے ساتھ اس کا اپوزٹ نیست لایا جاتا ہے، فردا کے ساتھ تو امروز کا محل ہو گا نا!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کہ بے گانہِ فردا و ہست ہے یہ
مفہوم کے لحاظ سے غلط ہے، ہست کے ساتھ اس کا اپوزٹ نیست لایا جاتا ہے، فردا کے ساتھ تو امروز کا محل ہو گا نا!
کیا "ہست و نیست" کو "نیست و ہست" باندھا جا سکتا ہے۔
"کہ بے گانہِ نیست و ہست ہے یہ"
 

یاسر شاہ

محفلین
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
"ڑ" حرفِ تہجی ہے کیسا خدایا
اثر جس پہ کوئی نہ بیم و رجا کا

نہ تنہائی کا خوف اُس کو ہو لاحق
نہ خود پر بھروسہ، نہ امید برحق

خیالوں میں ہر دم پڑا مست ہے یہ
کہ بے گانہِ فردا، بدمست ہے یہ

کوئی جو گھسیٹے، گھسٹتا ہی جائے
نہ تذلیل پر اپنی آنسو بہائے

کسی انجمن میں یہ جانا بھی چاہے
مگر اپنے دم پر کہیں جا نہ پائے

سکھا دے اب اس کو ہنر رہبری کا
دکھا دے اسے راستہ زندگی کا
بھائی یہ نظم بھی خوب ہے -آپ کی ما شاء الله نظم لکھنے کی مشق بھی اچھی ہے -

پہلا مصرع دیکھ لیں :

"ڑ" حرفِ تہجی ہے کیسا خدایا

"ڑ " کو "ڑے " پڑھا جائے گا لہٰذا مصرع کی ابتدا میں ہی "یے " گرے گی -جو مناسب نہیں -ایسا کچھ سوچیں :

عجب "ڑے " ہے حرفِ تہجی خدا یا

"ہے -حرف " میں آواز جو ملتی ہے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں -
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھائی یہ نظم بھی خوب ہے -آپ کی ما شاء الله نظم لکھنے کی مشق بھی اچھی ہے -

پہلا مصرع دیکھ لیں :

"ڑ" حرفِ تہجی ہے کیسا خدایا

"ڑ " کو "ڑے " پڑھا جائے گا لہٰذا مصرع کی ابتدا میں ہی "یے " گرے گی -جو مناسب نہیں -ایسا کچھ سوچیں :

عجب "ڑے " ہے حرفِ تہجی خدا یا

"ہے -حرف " میں آواز جو ملتی ہے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں -
بہت بہتر
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عجب "ڑ" ہے حرفِ تہجی خدایا
اثر جس پہ کوئی نہ بیم و رجا کا

نہ تنہائی کا خوف اس کو ہے لاحق
نہ خود پر بھروسہ، نہ امید برحق

خیالوں میں ہر دم پڑا مست ہے یہ
کہ بے گانہِ نیست و ہست ہے یہ

کوئی جو گھسیٹے، گھسٹتا ہی جائے
نہ تذلیل پر اپنی آنسو بہائے

کسی انجمن میں یہ جانا بھی چاہے
مگر اپنے دم پر کہیں جا نہ پائے

سکھا دے اب اس کو ہنر رہبری کا
دکھا دے اسے راستہ زندگی کا​
 

الف عین

لائبریرین
نہ تنہائی کا خوف اس کو ہے لاحق
نہ خود پر بھروسہ، نہ امید برحق
کیا اس شعر میں بھی ایطا کا عیب ہے؟

یقیناً، درست پکڑا ہے جسے کرنے سے سبھی چوک گئے
 
Top