نظم - مُجھ کو آپ سے شکوہ ہے - سلام مچھلی شہری

کاشفی

محفلین
مُجھے کچھ شکائتیں ہیں، پتہ نہیں‌ کس سے، میں آج کچھ لکھ رہا ہوں، معلوم نہیں‌ کیا، کیوں۔؟

پہلے جب دل رکھ ہی لیا تھا آپ نے پھر دل کیوں‌ توڑا؟
پہلے جب کچھ آس دلائی، آپ نے پھر منہ کیوں ‌موڑا؟
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے۔

میں نے آپ کو خط بھیجا تھا
آپ نے بھی زحمت کی تھی
میں نے بھی اپنا سمجھا تھا
آپ نے بھی اُلفت کی تھی
آپ کا رنگیں خط آیا تھا
میں‌ نے بھی جراءت کی تھی
آپ نے میرا دل رکھا تھا
میں نے بھی حسرت کی تھی

اب جب میرا دل مضطر ہے ۔۔یہ مدہوشی کیا معنی؟
اب میرے ہر خط کے بدلے ۔۔یہ خاموشی کیا معنی؟
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے

جُون کی رومانی راتوں میں
رنگیں‌ نظمیں کہتا تھا
یعنی اپنی ہی باتوں میں
کچھ کھویا سا رہتا تھا
ہاں، یاد آیا، آپ کو میں‌نے اپنا نغمہ بھیجا تھا
آپ نے کچھ دن بعد اُسی کو اپنی دھن میں‌گایا تھا
“جب بھی دیکھو، کھوئے کھوئے پژمردہ سے رہتے ہو”
آپ نے پوچھا تھا، ” پھر کیسے ایسی نظمیں‌کہتے ہو؟”
کچھ دن پہلے آپ مرے نغمات سے کھیلا کرتے تھے
بھولے سے اک شاعر کے جذبات سے کھیلا کرتے تھے
اب جب میں نے دُکھ میں رنگیں نظمیں کہنا چھوڑ دیا
بیکس کا دل رکھنا کیسا، آپ نے بھی دل توڑ دیا۔۔
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے

میں بھی ایک دولت والا ہوں
آپ نے شاید سمجھا تھا
میں‌ بھی نازوں کا پالا ہوں
آپ کو شاید دھوکا تھا
اچھی صحبت ہے، شاعر ہوں اور افسانے لکھتا ہوں
بیس برس کا ایک جواں‌ ہوں شوخ طبیعت رکھتا ہوں
آپ نے یہ سب سمجھامجھ کو اور مجھے مانوس کیا
اب جب میری حالت دیکھی دل توڑا مایوس کیا
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے

دولت، ثروت، عزت سے تو الفت کو کچھ کام نہیں
اُلفت کی افسردہ راتیں شادی کے ایام نہیں
آپ کو دولت سے الفت ہے
میں اس سے آگاہ نہیں
آپ کو غربت سے نفرت ہے
خیر، مجھے پرواہ نہیں
آپ یونہی سرگرمِ خوشی ہوں اور طبیعت شاد رہے
اچھا اب خاموش ہوں، چُپ ہوں لیکن اتنا یاد رہے
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے
مجھ کو آپ سے شکوہ ہے

(سلام مچھلی شہری - لکھنؤ)
 
Top