شکیب جلالی نظم : مُجرم - شکیب جلالی

مُجرم
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے
جس کے فُٹ پاتھ فقیروں سے اَٹے رہتے ہیں
خَستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے
یہ بھکاری کے جنھیں دیکھ کے گِھن آتی ہے

ہڈّیاں جسم کی نکلی ہوئی پچکے ہوئے گال
میلے سر میں جوئیں ، اعضاء سے ٹپکتا ہوا کوڑھ
رُوح بیمار ، بدن سست نگاہیں پامال
ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان

چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے
کچھ ہوس کار نگاہوں میں اُتر جاتے ہیں
جن کے افلاس زدہ جسم ڈھلکتے سینے
چند سکوں کے عوض شب کو بِکا کرتے ہیں

شدّتِ فاقہ سے روتے ہوئے ننھے بچّے
ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں
یا سرِ شام ہی سو جاتے ہیں بھوکے پیاسے
ماں کی سوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں

چند بد زیب سے شہرت زدہ انسان اکثر
اپنی دولت و سخاوت کی نمائش کے لیے
یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پا کر
چار چھ پیسے انھیں بحش دیا کرتے ہیں

کیا فقط رحم کی حقدار ہیں ننگی روحیں ؟
کیوں یہ انسان پہ انسان ترس کھاتے ہیں ؟
کیوں انھیں دیکھ کے احساسِ تہی دستی سے
اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں ؟

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے ؟
شکیبؔ جلالی
مئی 1952ء​
 
Top