نظم - رخصت

بھول جاؤ تمام باتوں کو

ان خیالوں کو محو کر ڈالو

پونچھ لو اشک اپنے دامن سے

بکھرے بکھرے ھیں بال سلجھا لو

جاؤ اب صبح ھونے والی ھے

اب نہ آنسو بہاؤ جانے دو

آؤ رخصت ھوں مسکراتے ھوئے

داغ رہ جائے گا میرے دل پر

روتے دیکھا جو تم کو جاتے ھوئے

جاؤ اب صبح ھونے والی ھے

خون حسرت چھلک رھا ھے آج

حسن گریا ں کے آبگینے سے

چوم کر میرے سرد ھونٹوں کو

کھینچ لو روح میرے سینے سے

جاؤ اب صبح ھونے والی ھے

سر اٹھاؤ، ذرا ادھر دیکھو

اک نظر آخری نظر دیکھو

شمع امید تم بھی گل کر لو

آرزو میں نے پھونک ڈالی ھے

جاؤ اب صبح ھونے والی ھے
 
Top