عبیداللہ علیم نظم- اگر ہم ٹوٹ جاتے- عبیداللہ علیم

نظم- اگر ہم ٹوٹ جاتے- عبیداللہ علیم

اگر ہم ٹوٹ جاتے
تو ستارے روٹھ جاتے
پھول کھلنا چھوڑ دیتے
اور پرندے چہچہانا بھول جاتے

اگر ہم ٹوتجاتے
تو کئی صدیاں ادھورے خواب کی حیرت میں گُم رہتیں
اِدھر میں رنج و غم سہتا
اُدھر تم رنج و غم سہتیں
زباں سے میں نہ کچھ کہتا ، زباں سے تم نہ کچھ کہتیں
اگر ہم ٹوٹ جاتے
تو کئی جنموں تلک یہ پیاس رہ جاتی
خلش اک زندگی بن کر
پسِ احساس رہ جاتی
ان آنکھوں کو تمہارے دیکھنے کی آس رہ جاتی

اگر ہم ٹوٹ جاتے-----------!
 
Top