نظم - اصلی انسانی زیور - نقل شدہ : کتاب بہشتی زیور از علامہ اشرف علی تھانوی

عبدالرؤف

محفلین
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

جب سے یہ نظم پڑھی تب سے مجھے یہ نظم بہت اچھی لگتی ہے، آج جب یونہی انٹرنیٹ پر تلاش کی تو کہیں بھی یونیکوڈ ٹائپ شدہ حالت میں نہیں ملی، سوچا خود میں ہی کیوں نہ ٹائپ کردوں، تو نظم حاضرِ خدمت ہے، پڑھیئے اور داد دیجیئے۔

نظم - اصلی انسانی زیور - نقل شدہ : کتاب بہشتی زیور از علامہ اشرف علی تھانوی

ایک لڑکی نے یہ پوچھا اپنی اماں جان سے
آپ زیور کی کریں تعریف مجھ انجان سے
کون سے زیور ہیں اچھے یہ جتا دیجیئے مجھے
اور جو بدزیب ہیں وہ بھی بتا دیجیئے مجھے
تاکہ اچھے اور بُرے میں مجھ کو بھی ہو امتیاز
اور مجھ پر آپ کی برکت سے کھل جائے یہ راز
یوں کہا ماں نے محبت سے کہ اے بیٹی مری
گوشِ دل سے بات سُن لو زیوروں کی تم ذری
سیم و زر کے زیوروں کو لوگ کہتے ہیں بھلا
پر نہ میری جان ہونا تم کبھی ان پر فدا
سونے چاندی کی چمک بس دیکھنے کی بات ہے
چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے
تم کو لازم ہے کو مرغوب ایسے زیورات
دین و دنیا کی بھلائی جس سے اے جاں آئے ہاتھ
سر پہ جُھومر عقل کا رکھنا تم اے بیٹی مُدام
چلتے ہیں جسکے ذریعہ سے ہی سب انساں کے کام
بالیاں ہوں کان میں اے جان گوش ہوش کی
اور نصیحت لاکھ تیرے جھمکوں میں ہو بھری
اور آویزے نصائح ہوں کہ دل آویز ہوں
گر کرے ان پر عمل تیرے نصیبے تیز ہوں
کان کے پتے دیا کرتے ہیں کانوں کو عذاب
کان میں رکھو نصیحتِ دیں جو اوراقِ کتاب
اور زیور گر گلے کے کچھ تجھے درکارہوں
نیکیاں پیاری مری تیرے گلے کا ہار ہوں
قوتِ بازو کا حاصل تجھ کو بازوُ بند ہو
کامیابی سے سَدا تو خرم و خر سند ہو
ہیں جو سب بازو کے زیور سب کے سب بیکار ہیں
ہمتیں بازو کی اے بیٹی تری درکار ہیں
ہاتھ کے زیور سے پیاری دستکاری خوب ہے
دستکاری وہ ہنر ہے سب کو جو مرغوب ہے
کیا کروگی اے مری جاں زیورِ خلخال کو
پھینک دینا چاہیئے بیٹی بس اس جنجال کو
سب سے اچھا پاؤں کا زیور یہ ہے نورِ بصر
تم رہو ثابت قدم ہر وقت راہِ نیک پر
سیم و زر کا پاؤںمیں زیور نہ ہو تو ڈر نہیں
راستی سے پاؤں پھسلے گر نہ میری جاں کہیں

چھپی ہوئی کتاب کے صفحے کا اسکین : http://goo.gl/PCJa2
 
Top