محمد تابش صدیقی
منتظم
آخری بات
٭
طلوعِ شمسِ مفارقت ہے،٭
پرانی کرنیں
نئے مکانوں کے آنگنوں میں لرز رہی ہیں
فصیلِ شہرِ وفا کے روزن
چمکتے ذروں سے بھر گئے ہیں، چمکتے ذرے!
گئے دنوں کی عزیز باتیں
نگار صبحیں، گلاب راتیں
بساطِ دل بھی عجیب شے ہے
ہزار جیتیں، ہزار ماتیں
جدائیوں کی ہوائیں لمحوں کی خشک مٹی اڑا رہی ہیں
گئی رتوں کا ملال کب تک!
چلو کے شاخیں تو ٹوٹتی ہیں
چلو کے قبروں پہ خون رونے سے اپنی آنکھیں ہی پھوٹتی ہیں
یہ موڑ وہ ہے جہاں سے میرے
تمھارے رستے بدل گئے ہیں
(پرانی راہوں کو لوٹنا بھی ہماری تقدیر میں نہیں ہے)
کہ راستے بھی ہمارے قدموں کے ساتھ آگے نکل گئے ہیں
طلوعِ شمسِ مفارقت ہے
تم اپنی آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے ستاروں کو موت دے دو
گئی رتوں کے تمام پھولوں تمام خاروں کو موت دے دو
نئے سفر کو حیات بخشو
کہ پچھلی راہوں پہ ثبت جتنے نقوشِ پا ہیں غبار ہوں گے
ہوا اڑائے کہ تم اڑاؤ!
٭٭٭
امجد اسلام امجد