نظر وابستۂ ماہِ محرم ہوتی جاتی ہے - شکیل بدایونی

حسان خان

لائبریرین
نظر وابستۂ ماہِ محرم ہوتی جاتی ہے
سلامی بزمِ ہستی بزمِ ماتم ہوتی جاتی ہے

طبیعت خود بہ خود دلدادۂ غم ہوتی جاتی ہے
صدائے دل صدائے سوزِ ماتم ہوتی جاتی ہے

ہوائے دہر کی خوں نابہ افشانی ارے توبہ
خزاں بر کف بہارِ بزمِ عالم ہوتی جاتی ہے

اُدھر صرفِ ستم گیسو بریدہ فوجِ شامی ہے
اِدھر تیغِ برہنہ اور برہم ہوتی جاتی ہے

ہر اک روحِ جفا ہے خود جفاکار و جفاپیشہ
بلا شک داخلِ قعرِ جہنم ہوتی جاتی ہے

شہادت جس کو مدت سے سرافرازی کا ارماں تھا
وہ اب پابوسِ محبوبِ دو عالم ہوتی جاتی ہے

حسینِ پاک کی گردن پہ خنجر چلتا جاتا ہے
مکمل داستانِ جورِ پیہم ہوتی جاتی ہے

خمِ تیغِ قضا محرابِ کعبہ ہے نگاہوں میں
جبینِ شوق سجدوں کے لئے خم ہوتی جاتی ہے

خدا شاہد کہ اس ایثار و قربانی کے صدقے میں
خدائی واقفِ رازِ دو عالم ہوتی جاتی ہے

زمینِ کربلا کے اُف وہ ہیبت ناک نظارے
دلوں سے قدرِ محشر واقعی کم ہوتی جاتی ہے

حریفانِ علی وعدہ خلافی کرتے جاتے ہیں
عداوت، جزو خوئے ابنِ آدم ہوتی جاتی ہے

مئے کوثر پلاتے ہیں جنابِ مصطفی شاید
علی اصغر کے رونے کی صدا کم ہوتی جاتی ہے

ستم کوشانِ بزدل شیر بن بن کر بپھرتے ہیں
دلیروں کی جماعت جس قدر کم ہوتی جاتی ہے

ترانے عشق کے اتنے ہی دلکش ہوتے جاتے ہیں
صدائے سازِ ہستی جتنی مدھم ہوتی جاتی ہے

جہاں پر جتنے اسرارِ شہادت کھلتے جاتے ہیں
شریعت اور محکم اور محکم ہوتی جاتی ہے

شکیل اسلام کے دشمن مٹے اور مٹتے جاتے ہیں
یہ قربانی مسلم تھی مسلم ہوتی جاتی ہے

(شکیل بدایونی)
 
Top