نظر آتی تھی کدھر اور کدھر کی نکلی ٭ راحیلؔ فاروق

نظر آتی تھی کدھر اور کدھر کی نکلی
زندگی راہ گزر اگلے سفر کی نکلی

بادشاہی بھی گدا عشق کے در کی نکلی
یہ پٹاری بھی اسی شعبدہ گر کی نکلی

ایک حسرت بھی نہ اس دیدۂِ تر کی نکلی
نہر نکلی بھی تو خوننابِ جگر کی نکلی

کوئی صورت نہ دعاؤں میں اثر کی نکلی
پلٹ آئی سرِ شام آہ سحر کی نکلی

ناک کی سیدھ میں بازار سے مقتل کو چلا
زندگی سے بڑی قیمت مرے سر کی نکلی

ذوقِ آوارگی ایمان کے درجے پر تھا
ہم ادھر ہی نہ گئے فال جدھر کی نکلی

عالمِ کون و مکاں نور کا پرتو نکلا
بزم کی بزم شہید ایک نظر کی نکلی

فن کو نادان سمجھتے رہے تنقیدِ حیات
زیست خود ڈھالی ہوئی دستِ ہنر کی نکلی

آدمیت نے ہمیں بھی کہیں ٹکنے نہ دیا
خود بھی کمبخت نکالی ہوئی گھر کی نکلی

مار کے پھونک اڑا دی گئی راحیل جو خاک
اس سے بڑھ کے نہ کچھ اوقات بشر کی نکلی

راحیلؔ فاروق
 
Top