نظرِ بد کے لیے تُو نے جو باندھا تعویذ

حافظ ہارون

محفلین
نظرِ بد کے لیے تُو نے جو باندھا تعویذ
ڈال کر بانہیں تِرے گلے سے لِپٹا تعویذ

عشق کے جن کا اثر جن پہ ہوا پھر نہ بچے
اس بَلا پر نہیں چلتا کوئی گَنڈا تعویذ

نہیں آتا نہیں آتا وہ کسی صورت سے
نہیں مِلتا نہیں مِلتا کوئی چلتا تعویذ

عالِموں دردِ جدائی بھی کہیں مٹتا ہے
مفت میں ہار گلے کا مِرے ہوگا تعویذ

اس کے جوبن پہ تصدّق ہیں ہزاروں عاشق
نقشِ تسخیر ہے اے بُت تِرے سر کا تعویذ

مرنے والے تِرے پھر کس لیے بےچین رہیں
ہو تُرا نقشِ کفِ پا جو لحد کا تعویذ

دیکھنا دِیدۂ بِسمِل کا ہسنی کھیل نہیں
باندھ لے پہلے ذرا آپ نظر کا تعویذ

آہِ پُر سوز تِری شُعلہ فشانی دیکھوں
غیر نے میرے جلانے کو جلایا تعویذ

نہ ہُوا پر نہ ہُوا آہ حَسنؔ کو آرام
ہم نے دنیا میں نہ چھوڑا کوئی گَنڈا تعویذ

اُستاذِ زمن شہنشاہِ سخن علّامہ حَسنؔ رضا بریلوی
 
Top