نظام

با ادب

محفلین
نظام
حصہ اول

ابتدائے آفرینش سے خیر اور شر کی طاقتیں دنیا میں بر سرِ پیکار ہیں . کبھی بیٹھ کر غور کیا جائے تو انسان مقام حیرت پہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ وہ کیا وجہ ہے کہ شر کا خاتمہ دنیا سے ممکن ہی نہیں ہو پاتا .
چند دن قبل ہماری والدہ محترمہ گاؤں کی پرا نی داستانوں کی بابت بات کر رہی تھیں بات کسی محترمہ کے متعلق تھی جنہوں نے شوہر کی موجودگی میں کسی غیر مرد سے تعلق استوار کر رکھے تھے ... بات کرتے کرتے اپنی سادگی اور معصومیت میں وہ ایک تبصرہ فرما گئیں جس نے مجھے گنگ کر دیا
فرمانے لگیں بس بیٹا یہ تو پرانے دور کی باتیں ہیں جب لوگ جاہل تھے اب تو تعلیم عام ہو گئی ہے معاشرے میں سدھار آگیا ہے اب ایسے کام نہیں ہوتے ..
انکے چہرے پہ پھیلی معصومیت اور بے خبری نے مجھے رشک میں مبتلا کر دیا
وہ جو یہ سمجھتی ہیں کہ تعلیم عام ہونے کی صورت میں معاشرہ سدھر چکا ہے یہ کتنا بوگس خیال ہے.آج کی دنیا کے برے کام تو ایسے فتنے کی شکل اختیار کر چکے ہیں کہ جسکا سد باب مشکل ہو چکا ہے.
پھر غور کرنے پہ خیال آیا کہ اگر تعلیم واقعی عام ہوئی ہوتی تو معاشرے کا سدھار بھی کچھ ایسی بعید از قیاس بات نہ تھی لیکن آج کے معاشرے میں فقط فنون عام ہیں تعلیم نہیں.
علم کے معنی ہیں جان لینا
اور یہ آگاہی اسلیے ضروری نہیں ہے کہ آپ جان کر آلات جراحی کے ماہر ہو جائیں یا زمین کے طول و عرض کو ماپ سکیں .. یہ سب باتیں ایک جاہل بھی سیکھ کر ان میں مہارت حاصل کر سکتا ہے کیونکہ یہ وہ ٹیکنیکل کام ہیں جن کا تعلق تجربے اور مہارت سے ہے ..
لیکن علم جانکاری ہے اچھائی اور برائی کے متعلق ... زندگی کو گزارنے کے اصول جان لینا .. دنیا میں رہنے اور دنیا کا کار آمد فرد بننے کے لیئے ہمیں لازماً کسی نظام کے تحت زندگی گزارنی ہوگی .. وہ کیا نظام ہو کس پہ عمل پیرا ہو کر زندگی بطریق احسن گزاری جا سکے ..
اگر ہم ایک اچھی عمارت بنا لینے پر قادر ہیں اور بہترین انجینئیر ہیں تو یہ ہر گز ضروری نہیں ہے کہ ہم معاشرے کے ایک اچھے فرد بھی ہونگے. عمارتوں کی لمبائی چوڑائی کو ماپ لینے کے اصول ہمیں اخلاق و عادات ہر گز نہیں ِ سکھاتے یہ اخلاق اور آداب سیکھ لینا کیوں ضروری ہیں؟ ؟؟
زندگی کو ایک نظام کے تحت گزارنا کیوں ضروری ہے؟
ڈسپلن کی اہمیت کیا ہے؟
آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپکو دنیا کے نقشے پر کوئی ایسا ملک نہیں ملے گا جو بغیر کسی " نظام " یا قانون کے ہو بلکہ ہر ملک کے اپنے قوانین اور نظم و ضبط ہوتا ہے . اسی طرح گر انتہائی چھوٹے پیمانے سے شروع کریں تو ہر گھر کا بھی اپنا ایک نظام ہوتا ہے. ہر ادارہ ایک نظام کے تحت چلتا ہے. اسکولوں کا اپنا نظام عدالتوں کا اپنا ہسپتالوں کا اپنا ایک الگ نظام اسی طرح یر شعبہ کسی نظام کے تحت رواں دواں ہے.....
علم کا مقصد بھی نظام سے آگاہی حاصل کرنا ہے کہ وہ کیا اصول و قواعد ہوں جن کے تحت زندگی گزاری جائے اور معاشرے کا ایک بہترین انسان بنا جائے .. اسی شعور کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ طالب علم اسبابِ زندگی حاصل کرنے کے لیئے کچھ فنون بھی سیکھتا ہے جنھیں وہ اپنی روزی کا سبب بناتا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ کیسے پتہ چلا کہ کس نظام کو اپنا کر ہم خیر و شر میں تفریق کر سکیں گے اور کیسے برائی کو اپنی زندگی سے خارج کر کے اچھائی کو داخل کر سکیں گے ..
اللہ انسان کا خالق اسکا رب ہے... رب کے تین معانی ہیں
اول... خالق. یعنی تخلیق کرنے والا
دوم ... مالک جسکے پاس ملکیت ہے انسان اللہ کی ملکیت ہے اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کر سکتا ہے اسکے ساتھ ... بالکل ایسے ہی جیسے میرے پاس ایک قلم ہے میں اس قلم کی مالک چاہوں تو استعمال کروں چاہوں تو پھینک دوں یا کسی کو تحفہ دے دوں .. مجھے مکمل اختیار ہے اس بات پر کیونکہ میری ملکیت تام ہے. مکمل ہے ..
سوم ...مدبر .. تدبیر کرنے والا پلانر وہ جو پلان کرتا ہے کیسے دنیا وجود میں آئے گی کیسے اختتام ہوگا کس کا کتنا رزق مال اولاد کتنی .. اس سب کا پلانر وہ ہے ..
اب جس نے انسان کو پیدا کیا کیونکر ممکن تھا کہ وہ اسے پیدا کرتا اور اسے زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہ سکھاتا ... کہ وہ بہتر علم رکھنے والا ہے کہ زندگی کو کیسے گزارا جائے اسے گزارنے کے کیا اسباب اور کیا طریقے ہونے چاہیئیں.
تو خالق نے انسان کو زندگی گزارنے کے لئیے ایک روڈ میپ ایک لائحہ عمل دیا ... ایک نظام دیا
یعنی " دین "
دین کیا ہے؟ ؟
دین نظام ہے ڈسپلن ہے. زندگی گزارنے کا طریقہ ہے
( جاری ہے)
سمیرا امام
 
ماشاء اللہ ،
آپ نے بہترین نکتہ اٹھایا ہے اور عمدہ تحریر ہے،
ایک جگہ میں نے ایسا بھی پڑھا ہے کہ علم انسان کو اس وقت تک نفع نہیں پہنچا سکتا جب تک وہ ادب کرنا نہ سیکھ لے کیونکہ ادب علم کا وضو ہے ۔
 
Top