نظامِ حکومتِ نبویہ ( ریاستِ مدینہ کے انتظامی امور )

الف نظامی

لائبریرین
اسپین سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ شیخ علی بن محمد الخزاعی تھے جو اندلس میں برپا افراتفری کی وجہ سے اپنا ملک چھوڑ کر مراکش کے شہر فاس آنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ انہوں نے ایک کتاب مرتب کی جو ساری کی ساری کتب حدیث سے ماخوذ ہے۔ اس اعتبار سے ان کے دور کی منفرد کتابوں میں سے ہے۔ اس کتاب کے استناز اور معیار کا اندازہ کرنے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اس کا سارا مواد کتب حدیث اور مستند کتب سیرت سے ماخوذ ہے۔
اس کا نام " تخریج الدلالات السمعیۃ علی ما کان فی عھد رسول اللہ ﷺ من الحرف و الصنائع و العمالات الشرعیۃ" تھا
خلاصہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جو مختلف انتظامی تدابیر اختیار کی گئیں ، خاص طور پر مدینہ منورہ میں ، جو ذمہ داریاں مختلف لوگوں کو سونپی گئیں یا انتظامی طور پر جو مختلف کام کئے گئے وہ کیا تھے۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی۔ اس کے مصنف بہت پختہ علم والے تھے۔
یہ کتاب دس حصوں اور 78 ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں 156 موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک حصہ مذہبی امور کے عنوان سے مرتب کیا ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں مسجد کا انتظام کیسے ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کا انتظام کون کرتا تھا۔ مدینہ منورہ میں اور کون کون سی مساجد تھیں۔ ان میں موذن کا تقرر کون کرتا تھا۔ امامت کون کرتا تھا۔ کیا اماموں کو رسول اللہ ﷺ کوئی تربیت دیا کرتے تھے کہ نہیں دیا کرتے تھے۔ اس طرح اس میں ایک شعبہ دستاویزات کا ہے کہ دستاویزات نویس کون تھے۔ دستاویزات کو محفوظ کیسے رکھا جاتا تھا۔ عدالتی امور کیسے انجام پاتے تھے۔ عسکری امور کیسے انجام پاتے تھے۔ صدقات ، عشور اور ٹیکس وصول کرنے کا نظام کیا تھا۔ بیت المال کیسے کام کرتا تھا۔
اس طرح کے اہم اور دلچسپ موضوعات پر یہ ایک بہت عمدہ کتاب ہے جو مدینہ منورہ کے معاشرہ ، مدنی ریاست اور معیشت کی بہت اچھی تصویر بیان کرتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سو فیصد محدثانہ اسلوب سے کام لیا ہے۔ کتب حدیث سے مواد لیا ہے۔ مورخانہ اسلوب کو بھی نبھایا ہے کہ سارا مواد یکجا کر کے اس کو پھر دلائل اور سند کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ مواد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ وہ احادیث کی تخریج بھی کرتے ہیں کہ کون سی حدیث کس کتاب میں ہے۔ اس کا مکمل حوالہ دیا ہے۔ کسی حدیث میں کوئی مشکل لفظ آیا ہے اس کی تشریح کی ہے۔ ان سے جو مسائل نکلتے ہیں ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ یوں یہ بیک وقت تاریخ ، حدیث ، سیرت اور حتی کہ سیاسیات اور فقہ سمیت بہت سے موضوعات پر ایک مفید کتاب ہے
علامہ خزاعی کی یہ کتاب خاصے عرصہ تک اہل علم میں مقبول رہی اور لوگ اس سے استفادہ کرتے رہے۔ اس کتاب کے لکھے جانے کے کئی سو سال بعد ایک اور صاحب علم بزرگ علامہ شیخ عبد الحئی کتانی نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ 1250 ھ کے لگ بھگ ان کا زمانہ تھا۔ انہوں نے خزاعی کی اس کتاب کو سامنے رکھ کر اس میں کچھ اضافے کئے۔ اتنے اضافے کئے کہ اس کا سائز تقریبا دگنا ہو گیا اور انہوں نے اس کو مزید مکمل بنا دیا۔
اس کتاب کا نام ہے التراتیب الاداریہ فی نظام الحکومۃ النبویہ
حکومت نبوی کے نظام کی ادارتی تفصیلات
یعنی
Institutional details of the government of the prophet
اس میں انہوں نے وہ سارے دس کے دس موضوعات برقرار رکھے جو علامہ خزاعی کی اصل کتاب میں بیان ہوئے تھے۔ ان پر مزید اضافہ بھی کیا کیوں کہ اس وقت تک مزید معلومات سامنے آ گئی تھی۔ جو کتابیں کسی علاقے میں مروج تھیں اور دوسرے علاقے میں دستیاب نہیں تھیں وہ علامہ عبد الحئی کتانی کو دستیاب ہوگئی تھیں۔
یہ لمبے لمبے سفر کرتے تھے۔ کئی بار حج کا سفر کیا۔ ہندوستان بھی تشریف لائے۔ علامہ کتانی ایک جہاں گرد شخصیت تھے۔ یہ واحد مصنف ہیں جنہوں نے مراکش میں بیٹھ کر ہمارے ہاں کے اہل علم پر کتاب لکھی۔ وہ برصغیر کے مصنفین یعنی لاہور ، ملتان اور ہمارے دوسرے علاقوں کے مصنفین کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان کو اتنی واقفیت ہمارے علاقے سے بھی تھی۔ شاید اسی لئے ان کی کتاب زیادہ جامع اور مکمل ہے۔ اس میں خزاعی کی کتاب کا سارا مواد بھی ہے اور علامہ کتانی کا اپنا اضافہ بھی ہے۔
اس میں انہوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے معاونین اور مشیر کون کون تھے۔ وزارت کی ذمہ داری پر کون سے صحابہ کرام فائز تھے۔ پھر ایک بڑی اہم چیز جو علامہ کتانی نے اضافہ کی ہے یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تحریر اور نوشت و خواند کا نظام کیا تھا۔ اس سے حضور کے زمانے کے نظام تعلیم پر بڑی روشنی پڑتی ہے۔ پھر عسکری انتظامات اور حربیات کی تفصیلات پر بھی بہت وقیع مواد فراہم کیا ہے۔
(محاضرات سیرت از ڈاکٹر محمود احمد غازی ، صفحہ 234)
 
Top