نصابی کورس کی کتب

نبیل

تکنیکی معاون
میں اس موضوع پر پیشرفت کو دیکھتا آیا ہوں اور اب اس پر کچھ کہنا بھی چاہوں گا۔

میرا جہاں تک خیال ہے کہ نصابی کتابوں کی ڈیجیٹائزیشن کے پس منظر میں اصل محرک طلبا کی رہنمائی کے لیے اردو میں مواد کی آن لائن فراہمی ہے۔ صرف ٹیکسٹ‌ بک بورڈ کی کتابیں ڈیجیٹائز کرنا شاید سود مند ثابت نہیں ہوگا کیوں کہ ان کے مواد، ترتیب اور معیار میں مستقل تبدیلی آتی رہتی ہے، بہتر یہی ہے کہ ایسا مواد ترتیب دیا جائے جس سے کسی بھی درجہ کے طلبا و طالبات استفادہ حاصل کر سکیں اور جس کو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر بنایا جا سکے۔ میرے ذہن میں یہ کام بھی وکی پیڈیا پر بہترین انداز میں ہو سکتا ہے۔ (اچھا بابا جلدی مکمل کر دیتا ہوں کام وکی پیڈیا شامل کرنے کا بھی :p )

گائیڈز اور خلاصوں کی بات بھی میرے خیال میں اچھی نیت سے ہی کی گئی ہے۔ اصل مقصد طلبا کو تحقیق اور حوالے کے لیے مواد کی فراہمی ہے۔ اس طرح کا مواد انگریزی اور دوسری لاطینی زبانوں میں ویب پر وافر مقدار میں موجود ہے لیکن اردو میں یہ بالکل ناپید ہے۔

یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ ڈیجیٹل لائبریری کے کام سے کچھ ہٹ کر اپروچ مانگتا ہے اگرچہ کام اسی نوعیت کا ہے۔

میرے خیال میں پہلے اس سلسلے میں ترتیب دیے جانے والے مواد کو پلان کر لینا چاہیے۔ اس کو مختلف مضامین جیسے طبیعیات، کیمیا، ریاضی وغیرہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان مضامین کے اندر درجات کے اعتبار سے تقسیم کی جا سکتی ہے یعنی کہ جماعت نہم، دہم وغیرہ۔

اس زمرے میں پیش کیا جانے والا مواد تحریری اردو کے علاوہ ملٹی میڈیا جیسے کہ فلیشن انیمیشن وغیرہ پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال How Stuff Works ہے جس پر انیمیشن کے ذریعے مؤثر انداز میں مختلف موضوعات کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ Tom's Hardware بھی بہت اچھی سائٹ ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سیدہ شگفتہ نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
اگر میں غلطی نہیں کر رہی تو پاکستان میں مختلف تعلیمی بورڈز ہیں، مثلاً پیجاب بورڈ، سندھ بورڈ، وفاقی بورڈ وغیرہ وغیرہ۔

یہ ایک اہم پراجیکٹ ہو سکتا ہے اگر ہم کورس کی تمام کتب (نرسری تا میٹرک) برقیا دیں۔

بعد میں اس کام کو میٹرک سے آگے بڑھایا جائے اور بی اے/بی ایس سی تک اسے مکمل کیا جائے۔

اس سلسلے میں مختلف کالجز کے طلباء سے رابطہ کر کے انہیں کام پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔


کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پیجاب بورڈ کی کتب کاپی رائیٹ سے آزاد ہیں یا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے میں اس سلسلے میں زیادہ رائے نہیں دے سکتی کیونکہ میں پاکستانی سکول اور کالج سسٹم سے ناواقف ہوں۔ تو ایسے تمام احباب، جنہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی ہے، وہ بہتر آراء پیش کر سکتے ہیں کہ پاکستانی سٹوڈنٹس کو کس کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر میں نے پاکستان میں گائیڈز اور keys کے نام پر بہت سے کتب فروخت ہوتی دیکھی ہیں، جہاں نصابی کتب میں موجود سوالات کو حل کیا گیا ہوتا ہے۔ آپ کے خیال میں اگر ان گائیڈز اور Keys وغیرہ کو برقی شکل میں تبدیل کیا جائے تو کیا اس سے ایک average پاکستانی سٹوڈنٹ کو فائدہ پہنچے گا؟

السلام علیکم

مہوش ، آپ کے دو سوالات:

1۔ پاکستانی سٹوڈنٹس کو کس کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ؟


2۔ اگر ان گائیڈز اور Keys وغیرہ کو برقی شکل میں تبدیل کیا جائے تو کیا اس سے ایک average پاکستانی سٹوڈنٹ کو فائدہ پہنچے گا؟
-----------------------------------------------------

پاکستانی طلب علم کو سر فہرست جس چیز کی ضرورت ہے اور رہے گی وہ ہے معیار (تعلیمی معیار)۔

گائیڈز ، Keys ، نوٹس ، شرح پانچ سالہ پیپرز ، نمونہ ہائے سوالات وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام ایک طالب علم کی علمی صلاحیت کو بڑھانے یا اُجاگر کرنے میں مدد نہیں دیتیں بلکہ علمی میدان میں اس کا راستہ زنگ آلود ضرور ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں طلبہ و طالبات کی اکثریت انھیں کا استعمال کرتی آرہی ہے اور اس کے پس منظر میں تعلیمی معیار نہیں بلکہ تجارتی و شخصی مفادات ہیں حتٰی کہ خود تعلیم کے پاسبان جن میں بڑے بڑے اساتذہ و پروفیسرز تک اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ان کے تیار کئے ہوئے نوٹس ، شرح ، گائیڈز وغیرہ سرکولیشن میں رہیں ۔ یہ سرکولیشن تجارتی و نجی دونوں سطح پر ہے ۔ایسے میں کچھ لوگ پیسہ کماتے ہیں اور کچھ شہرت اور طالب علم کی کمائی صرف نقصان اٹھانا ہے اور طالب علم کو خبر ہی نہیں ہوتی ۔

اگر تعلیمی معیار مدنظر ہوتو (کم از کم پہلے مرحلے میں) اصلی متون برقیانے پر توجہ دی یعنی کہ نصابی کتب چاہے وہ پرانی ہوں ۔ (نصابی کتب کے کاپی رائٹ اگرچہ ایک الگ مگر متوازی بحث رہے گی۔) (اسی طرح جن لوگوں کے تجارتی مفادات گائیڈز اور نوٹس یا شرح اور پانچ سالہ پیپرز سے وابستہ ہیں کیا وہ پسند کریں گے کہ انکی تجارت کو برقیا دیا جائے :) )

اصلی متن کسی بھی طالب علم (اگر وہ واقعی طالب علم ہو اور اسے علم کی طلب ہو) کو کوشش اور تلاش میں سرگرداں کرکے اس کی علمی صلاحیت و قابلیت کو بڑھاتا و اجاگر کرتا ہے ۔ دوسری جانب گائیڈز ، نوٹس ، شرح ، پانچ سالہ پیپرز ، نمونہ سوالات جیسی تمام مذ کورہ و رائج اصطلاحات سب سے پہلے اس پر تلاش و کوشش اور غور و فکر کرنے کا در ہی بند کردیتی ہیں۔ اور یہ چیز تعلیم اور طالب علم کے مفاد میں نہیں جاتی۔
-----------------------------------------------------

کیا مجھے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یہاں لب کشائی سے میری مراد مخالفت کرنا نہیں بلکہ آپ کے سوال کا جواب اپنے فہم کے تحت دینا ہے۔

شکریہ

شگفتہ سسٹر،

آپ کی اس عمدہ تحریر کا بہت شکریہ۔ مجھے ان پرانے پانچ سالہ پرچوں کا اتنا علم نہیں ہے اور نہ ہی نمونہ ہائے سوالات کے متعلق۔ اور ایک طالب علم کے علمی سفر میں یقینا یہ نقصان دہ ہیں۔

باقی جہاں تک نوٹس یا گائیڈز وغیرہ کا تعلق ہے، تو میرے نزدیک ان کے کچھ مثبت زاویے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میرا نقطہ نظر غلط ہو۔۔۔ بہرحال پھر بھی مجھے اسے بیان کرنے دیں:

ہمیں یہ چیز بھی ذہن میں رکھنی چاہیے:

1۔ بہت مشکل ہے کہ ایک طالب علم صرف نصاب کی کتاب پڑھ کر چیزوں کو سیکھ سکے۔ میں نے یورپ میں کورس کی کتابیں دیکھی ہیں، اور یہاں بھی کوئی کورس کی کتاب ایسی نہیں ہے جسے پڑھ کر طالب علم سب کچھ سیکھ سکے

2۔ اب مرحلہ آتا ہے استاد کا۔۔۔۔ بہترین کمبی نیشن ہے نصاب کی کتاب + استاد
اگر استاد اچھا ہے، تو پھر طالب علم بہت کچھ سیکھ جائے گا۔
مگر اُس وقت کیا کیا جائے جب استاد ناکارہ ہو؟
اور پاکستان میں اسوقت اساتذہ کا معیار تسلی بخش بہرحال نہیں ہے۔ (میں اکثریت کی بات کر رہی ہوں، جن میں گورنمنٹ سکول بھی شامل ہیں)۔
حتی کہ یورپ کے سکولوں میں بھی اگر استاد صحیح طرح چیزیں سمجھانے سے قاصر ہو تو یہاں بھی ہم لوگ کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ (اور یقین کریں کہ یہاں پر سکول کا ہر ایک استاد کم از کم پانچ سال کی یونیورسٹی مکمل کیے ہوئے ہوتا ہے)۔

تو ایسے موقع پر کیا کیا جائے جب کہ بچے کو استاد ہی ناکارہ ملا ہو؟ کیا بچے کو ایسے ہی رُلنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟

ایک حل والدین کے سامنے یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو اچھا ٹیوٹر رکھوا دیا جائے (یہ یہاں یورپ میں بھی ہوتا ہے۔۔۔ مگر پاکستان کی نسبت بہت کم پیمانے پر)

=======================

ٹیوٹر کے علاوہ جو حل ہو سکتا ہے، وہ Self Study کی بنیاد پر کورسز ہیں۔

فی الحال ہم تاریخ اور ادب (انگریزی\اردو) کو سائیڈ پر رکھتے ہیں، اور صرف ریاضی، فزکس، کیمسٹری وغیرہ پر توجہ ڈالتے ہیں۔

ریاضی، فزکس اور کیمسٹری وہ مضامین ہیں کہ جن میں سوالات کو حل کرنا ہوتا ہے (یعنی اس مضامین میں سوالات کے حل کو رٹا نہیں مارا جا سکتا)۔

تو گائیڈز یا نوٹس سے اگر کوئی طالب علم، سیلف سٹڈی کی بنیاد پر سوالات کا حل سیکھتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ گائیڈز یا نوٹس وہی کام کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھا استاد کرتا ہے۔

ریاضی کا مسئلہ میرے سامنے ہے کہ اگر ایک چھوٹی سی چیز اٹک جائے، تو پورا سوال اٹک جاتا ہے اور انسان اس میں Interest کھو بیٹھتا ہے۔ اس موقع پر یا تو کوئی استاد، یا ٹیوٹر آپ کی رہنمائی کرنے کے لیے موجود ہو۔۔۔۔ ورنہ پھر گائیڈز میں موجود حل دیکھ کر انسان اس مشکل سے نکل سکتا ہے۔

===============================

اوپر میں نے گائیڈز کے متعلق جو لکھا ہے، وہ اس چیز کو دیکھنے کا صرف ایک زاویہ ہے، اور ہو سکتا ہے کہ حقیقی دنیا میں اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات ہی ہوں۔ بہرحال۔۔۔۔

اب گائیڈز کو چھوڑ کر اُس تجویز کی طرف چلتے ہیں جو نبیل بھائی نے دی ہیں۔ میرے خیال میں یہ پرفیکٹ تجاویز ہیں۔ لازمی نہیں کہ نصاب کی طرز پر، لیکن مضامین کی بنیاد پر تحقیق مواد کو ڈیجیٹائز کر کے نیٹ پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس چیز کا ہر صورت میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ امید ہے کہ نبیل بھائی اس قسم کی مزید تجاویز پیش کرتے رہیں گے۔
 
اعجاز اختر نے کہا:
ل؛یکن یہ کتب کاپی رائٹ سے آزاد تو نہیں ہوں گی نا! یہاں بھی پتہ چل؛ا ہے کہ انٹر اور بی اے وغیرہ کی اردو فارسی کی کتب نہیں ہیں، لوگ زیراکس سے کام چلا رہے ہیں، لیکن کاپی رائٹ بورڈ کا ہے یا یونیورسٹی کا۔

یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا مگر شاید آزاد نہ ہو یہ دو کتابیں بھی مگر سر فہرست تو مسئلہ ہے ان کتب کی دستیابی کا۔ یہ تلخ‌تجربہ‌‌‌‌‌‌‌‌‌ مجھے دو بار ہو چکا ہے جب سر توڑ کوشش کے باوجود فلسفہ اور منطق کی کتابیں نہ مل سکیں۔ یہ دونوں کتابیں ابتدا کرنے کے لیے بہت ہی موضوع ہیں اور ان سے سب مستفید ہو سکتے ہیں۔ ویسے بھی فلسفہ پر ابھی تک باقاعدہ مباحث کا آغاز نہیں ہوسکا( میں نے بھی ڈرتے ڈرتے نہیں کیا)
 

دوست

محفلین
جی فی الحال کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے تاہم آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گا آج کل سارے پراجیکٹس سستی کا شکار ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
َحیرت ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے بھی؟ ابھی تو صرف مہوش صاحبہ غیر حاضر ہیں اور سب خاموش؟ :)
بےبی ہاتھی
 
اصل میں مہوش موضوع کو کافی تفصیل سے لے کر چلتی تھیں اور اس وقت باتیں زیادہ اور کام کم ہو رہا تھا اس لیے بات ایک حد تک چل کر رک گئی۔ اب اس کارِ‌خیر میں حصہ ڈالتے ہیں سب۔

میں سی شارپ اور فلسفہ کے موضوعات سے شروعات کرنے لگا ہوں۔ آ جاؤں میرے پیچھے پیچھے :wink:
 
Top