نصابِ تعلیم اور ہارس ٹروجن تھیوری

نذر حافی

محفلین
یکساں نصابِ تعلیم اور ہارس ٹروجن تھیوری
تحریر: نذر حافی
ہارس ٹروجن تھیوری صرف یونانیوں تک محدود نہیں۔ یہ نسل در نسل ہماری اس دنیا میں چل رہی ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک حملہ آور بادشاہ جب کئی سال تک ایک قلعے کو فتح نہیں کرسکا تو اس نے ایک جنگی چال چلی۔ چال کے مطابق اس نے ایک بڑا خوبصورت گھوڑا بنوایا اور اپنی فوجوں کو لے کر دور چلا گیا۔ محصور قلعے کے فوجیوں نے جب باہر کسی کو نہ دیکھا تو انہوں نے باہر نکل کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ باہر کا منظر خالی دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے، وہ اُس دیو ہیکل گھوڑے کو اپنی فتح کی علامت سمجھ کر اٹھا کر اندر لے گئے۔ اندر شب بھر فتح کا جشن منایا گیا، فوجی ناچ گانے اور عیش و نوش کے بعد بے سُدھ ہوکر سوگئے۔ جب سنّاٹا چھا گیا تو منصوبے کے مطابق گھوڑے میں چھپے ہوئے فوجی باہر نکلے، انہوں نے قلعے کے دروازے کھولے، اس کے بعد باہر چھپی ہوئی فوجیں قلعے میں داخل ہوئیں اور سوئے ہوئے لوگوں پر شب خون مارنے کے بعد فاتح بن گئیں۔
تاریخ میں ایسا کئی بار ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ مثلاً جہادِ افغانستان کو لیجئے۔ بڑا خوبصورت لیبل تھا، لیکن اندر سے ہمیں کلاشنکوف کلچر، منشیات، خون خرابے اور تعصبات کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ ابھی یکساں قومی نصاب کی بات کر لیجئے۔ نصاب کمیٹی نے اس پر مسلسل کام کیا ہے۔ یکساں قومی نصاب کی سوچ واقعتاً قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔ اس کی بھرپور تائید کی جانی چاہیئے۔ تاہم ایک قوم ایک نصاب کے اس خوبصورت لیبل کے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً جب کالعدم تنظیموں اور جماعتوں کی طرف سے اس نصاب کی پورے زور و شور کے ساتھ تائید و حمایت کا سلسلہ جاری ہے تو جھانکنے میں حرج ہی کیا ہے۔ کالعدم سپاہِ صحابہ نے اس نصاب کی تائید کا اعلان حالیہ دنوں میں باقاعدہ ایک اجلاس میں بھی کیا ہے۔ اجلاس کی صدارت کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ مولانا احمد لدھیانوی نے کی جبکہ اجلاس میں ایم پی اے معاویہ اعظم، پیر امین الحسنات شاہ، میاں جلیل احمد شرقپوری، مولانا الیاس چنیوٹی، مولانا عبدالروف فاروقی، مولانا سید کفیل بخاری، مولانا عبدالخالق رحمانی، مولانا عبدالغفور راشد، مولانا فہیم الرحمان سمیت دیگر رہنماء شریک ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ تشکیل شدہ نصاب پر نظرِثانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے مطابق صحابہ کرام ؓ کے بارے میں جو اور جیسے لکھا گیا ہے، وہ بالکل درست ہے۔ ہم یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اصحاب رسولﷺ کے بارے میں تین طرح کی آراء ہیں۔ ایک رائے کالعدم سپاہ صحابہ و دیگر کچھ کالعدم تنظیموں، کچھ اہلِ حدیث اور کچھ دیوبندی حضرات کی ہے۔ اس رائے کے مطابق صحابہ کرام پر اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم کی طرح ایمان لانا واجب ہے اور جو ایمان نہ لائے، وہ کافر اور واجب القتل ہے۔ یہ ایک رائے ہے۔ اس کے مقابلے میں دو دیگر رائے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک اغلب رائے اکثر اہل سنت (حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، اہلِ حدیث) کی رائے ہے اور تیسری شیعہ حضرات کی۔
اکثر اہلِ سنّت کی رائے یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐ پر ایمان لانے سے انسان مسلمان ہو جاتا ہے۔ ان کے ہاں مسلمان ہونے کیلئے صحابہ کرام پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ وہ اس بات کو فراخدلی سے تسلیم کرتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد بعض صحابہ کرام سے غلطیاں اور گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ وہ تاریخی تجزیہ و تحلیل کے وقت، ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ان غلطیوں کو غلط کہنے کو درست مانتے ہیں۔ اُن کے مطابق غلط کو غلط کہنا درست ہے، لیکن ادب کے ساتھ۔ اسی طرح ان کا یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام نے جتنی بھی بڑی خطا کی ہو، وہ قیامت کے دن سزا کے بعد بالآخر بخشے جائیں گے۔ وہ صحابہ کرام کی غلطیوں کو خطائے اجتہادی کا نام دے کر انہیں جائزالخطا قرار دیتے ہیں۔ اس دوسرے گروہ میں مولانا مودودی، ڈاکٹر طاہرالقادری، مولانا اسحاق مرحوم، انجینئر مرزا محمد علی وغیرہ وغیرہ جیسی شخصیات کے نام سرِفہرست آتے ہیں۔
اس کے بعد اہلِ تشیع کا نظریہ ہے۔ شیعہ حضرات کے مطابق جو شخص حیاتِ پیغمبرﷺ میں ایمان لایا اور تاحیات اُس ایمان پر قائم رہا، صرف وہی صحابی کہلانے کا حق دار ہے۔ ان کے مطابق جس نے ایمان لانے کے بعد رسولﷺکی اطاعت نہیں کی، تو وہ صحابی بھی نہیں رہا۔ یعنی اہلِ تشیع کے ہاں حکمِ رسولﷺ کے مقابلے میں خطائے اجتہادی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کا چودہ سو سالہ اٹل عقیدہ ہے کہ جس نے فرمانِ رسول سے سرتابی کی یا انحراف کیا، وہ صحابی بھی نہیں رہا۔ یاد رہے کہ شیعوں کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پھیلائی گئی ہے کہ شیعہ اصحاب کو نہیں مانتے جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ شیعہ اصحاب کی غلطی کو نہیں مانتے۔ ورنہ حیاتِ پیغمبرﷺ میں کسی شخصیت نے ایمان لانے کے بعد اگر اپنے کسی عمل سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت نہیں کی تو اہلِ سُنّت کی طرح ہی بلکہ اہلِ سُنّت سے بڑھ کر ایسے صحابہ کرام کا شیعہ عقائد میں خاص مقام اور منفرد احترام ہے۔ اہلِ سنت سے بڑھ کر اس لئے کہا ہے، چونکہ اگر دو صحابی آپس میں لڑیں تو اہلِ سُنت دونوں کو واجب الاحترام کہتے ہیں، لیکن شیعہ صرف اُسی کو محترم شمار کرتے ہیں، جو حق پر ہو۔ اُسے نہ صرف حق پر شمار کرتے ہیں بلکہ اُسے ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق اگر کسی بھی مسئلے میں دو صحابی لڑیں اور ایک صحابی ناحق دوسرے کو زخمی یا قتل کر دے تو شیعہ عقیدے کے مطابق پھر دونوں قابلِ احترام نہیں رہیں گے بلکہ جو صحابی حق پر ہوگا، صرف اسی کی حمایت، مدد اور عزت کی جائے گی اور جس نے ناحق ہاتھ اٹھایا ہے، اُس نے سنّتِ رسولﷺ سے انحراف کیا ہے، لہذا صحابی ہونے کی وجہ سے اُسے جو عزت اور مقام ملا تھا، وہ باقی نہیں رہے گا۔ شیعہ مسلک میں اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانے کے بعد جو جیسا کرے گا، ویسا بھرے گا۔ اُن کے ہاں اعمال کے اعتبار سے ساری اُمّت برابر ہے۔ اس میں اہلِ بیتؑ، صحابہ کرامؓ، مجتہدین اور تابعین و تبع تابعین و مفسرین و محدثین و۔۔۔ کا کوئی فرق نہیں۔ شیعہ حضرات کے نزدیک کسی کے احترام کا معیار اور کسوٹی فقط اتباعِ قرآن و اطاعتِ رسولؐ ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق جو حکمِ رسولﷺ سے بغاوت کرے گا، وہ دین کا مجرم ہے اور وہ اہلِ بیت ؑ یا صحابہ کرامؓ میں شمار نہیں ہوسکتا۔
صحابہ کرام ؓ کے بارے میں عقائد کا یہ اختلاف یکساں نصاب میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ سپاہِ صحابہ اور ان کے ہم فکر مکاتب چونکہ مسلمان ہونے کیلئے اللہ اور رسولؐ کے ہمراہ سارے صحابہ پر ایمان لانا ضروری سمجھتے ہیں، اس لئے اس نصاب میں جن شخصیات کو اصحاب کے عنوان سے ہیرو بنا کر کتابوں میں شامل کیا گیا ہے، وہ اس پر خوش ہیں۔ اس کے مقابلے میں اغلبِ اہلِ سنت اور شیعہ اس عقیدے کے قائل نہیں ہیں۔ جب معرکہ حق و باطل ہو تو اغلبِ اہل سنّت بھی حق کو حق کہتے ہیں اور حق پر کھڑے صحابی کو ہی اپنا ہیرو اور رول ماڈل مانتے ہیں، جبکہ باطل پر کھڑے صحابی کی بےادبی نہیں کرتے، لیکن ہیرو بھی نہیں مانتے۔ اس کی تاریخ میں بے شمار مثالیں ہیں۔ مثلاً معرکہ صفین میں اغلب اہلِ سنت کے ہیرو حضرت امام علی ؑ ہیں۔ وہ امام علی ؑ کے مقابلے میں آنے والے کسی بھی شخص کو حق پر یا اپنا ہیرو نہیں کہتے اور ان کی غلطی کو قبول کرتے ہیں۔ اس کے بعد شیعہ کا تو مسئلہ ہی واضح ہے، وہ تو ایسے افراد کو صحابی ہی نہیں مانتے تو ہیرو کیسے مانیں گے۔
پس پتہ یہ چلا کہ تشکیل شدہ نصابی کتب سے سپاہِ صحابہ اور اس کے ہم فکر افراد کے نظریات و عقائد کی ترویج و اشاعت کا کام لیا گیا ہے، جبکہ اغلبِ اہلِ سنت اور شیعہ عقائد کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہم چونکہ غلط فہمیوں کے رسیا سماج میں متولد ہوئے ہیں۔ لہذا کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے کہ یکساں نصابِ تعلیم میں صحابہ کرام کے ذکر پر کسی کو اعتراض ہے، بلکہ معترضین کا اعتراض اُن لوگوں پر ہے، جو اکثریت میں مسلمانوں کے ہیرو نہیں ہیں، لیکن ان کے بچوں کے سامنے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ قارئین ِکرام! یہ اس نصاب میں موجود صرف ایک مسئلہ ہے۔ باقی مسائل پر پھر حسبِ فرصت بات کریں گے۔
بہرحال یہ بات تو ہر باشعور کو سمجھ میں آرہی ہے کہ جس نصابِ تعلیم پر سپاہِ صحابہ جیسی کالعدم تنظیمیں اور لوگ بغلیں بجا رہے ہوں، اُسے سکولوں میں نافذ کرکے یقیناً ملی وحدت اور ایک قوم کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ یعنی ایک قوم ایک نصاب کے خوبصورت گھوڑے کے اندر کالعدم تنظیموں اور شدت پسند عناصر کی فتح کا سارا سامان موجود ہے۔ دوسرے لفظوں میں آج ایک مرتبہ پھر پاکستان نامی، اسلام کے قلعے کے باہر خوبصورت گھوڑا تیار کیا گیا ہے اور اسے اب اسلام کے قلعے کے اندر لے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کیا کوئی ہے، جو اس قلعے کی حفاظت کیلئے بیدار ہو!؟ کیا کوئی ہے، جو اس مرتبہ ہارس ٹروجن تھیوری کو کامیاب ہونے سے روکنے کیلئے پاکستان کے سوئے لوگوں کو جگانے کی خاطر واویلا کرے!؟
 
Top