نشید۔۔۔ صادق اندوری

الف عین

لائبریرین
حَمْد خُدا

زبان خلق یہ کہتی ہے کبریا ہے تو
تمام ارض و سماوات کا خدا ہے تو
وجود ہےمِرا آغاز اور عدم انجام
یہ خلفشار وہ ہے جس سے ماورا ہےتو
طلب پہ ہی نہیں موقوف تِرا فیض عمیم
ہر ایک شخص کو بے مانگے دے رہا ہے تُو
ہر ایک چیز نے پائی ہے ابتدا تجھ سے
ہر ایک چیز کی لاریب انتہا ہے تو
’’نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم‘‘
ازل ابد کے تعیّن پہ چھا گیا ہے تُو
بہت قریب سے مجھ کو پکارنے والے
بہت ہی دور سے مجھ کو پُکارتا ہے تُو
نہ پھیر اپنی نگاہیں غریب صادق سے
کہ ایک شاعرِبے کس کا سہارا ہےتُو
۰۰۰۰۰۰۰۰
 

الف عین

لائبریرین
نعت مُصطَفےٰ

تجلّی دو جہاں کا مظہر رسولِ عرش آستاں ملاہے
مبارک اے تیرہ زندگانی زمین کو آسماں ملا ہے
کہانی امن و سلامتی کی ورق ورق ہوگئی مکمل
جواب جسکا نہیں جہاں میںہو صاحبِ داستاں ملا ہے
تمام رحمت، تمام رافت ، وہ سر سے پا تک تمام اُلفت
گزشتہ اقوام میں کسی کو پیمبر ایسا کہاں ملا ہے
جو ہیں محمدؐ کے نام لیوا اُنہیں ہو کیوں خوف گردشوں کا
ہمیشہ طیبہ کی سر زمیں سے پیام امن و اماں ملا ہے
غلط روش پر نہ چل سکے گا مسافر راہ زندگانی
جو منزلوں کا پتہ بتاءے وہ صاحب کارواں ملا ہے
جُھکے نہ کیوں سر، درِ نبیؐ پربصد محبت بصد عقیدت
ہمیں ہمالہ کی چوٹیوں سے بہند تر آستاں ملا ہے
رسولؐ کی یاد سے مسلسل مہک رہا ہے مشام صادقؔ
خزاں رسیدہ جہاں میں ہم کو بہر زا گلستاں ملا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ترا قصوردلِ حزین کو خوشی کا رستہ دکھا رہا ہے
نفس نفس کو بہار نَوپیامِ رنگین سُنا رہا ہے
بہار کا دور کیف آگیں چمن میں آیا ہے روح بن کر
ہر ایک پژمُردہ پھول کو جو حیا ت پرور بنا رہا ہے
محبّت آمیز کوششوں سے کیا ہے گھر میں نے ان کے دل میں
عتاب جاتا ہے اب اُن کا جلال بھی مُسکرا رہا ہے
تری تجلّی کی رہ دیکھوں یہ مجھ سے ہر گز نہ ہو سکے گا
خیال میرا ہزاروں نقشےبنا بنا کر مٹا رہا ہے
تری تجلّی کا ایک ذرّہ کہ نام ہے جس کا شانِ رحمت
تمام عالَم کا حُسن بن کر تما عالَم پہ چھا رہا ہے
اُدھر وہ تیّار ہو رہے ہیںجھلک دکھانے کو چلمنوں سے
اِدھر مرا ذوق دید سارےنظر کے پردے اُٹھا رہا ہے
کسی کی ویراں الَم سَرا کو کبھی تو عشرت محل بنادو
تمہارا صادقؔ بہت دِنوں سے فراق کے غم اٹھا رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
جادہ پیمائے محبّت کا مقدُر دیکھتے
ذرّہ ذرّہ کو حریہف حُسن منظر دیکھتے
زندگی پر تبصرہ تو ہو چُکا مُدّت ہوئی
موت پر ہوتی ہے کیا تنقید آکر دیکھتے
ایک دل پہلو میں وہ بھی صد بیاباں صد جنوں
کاش تم بھی میری ویرانی کا منظر دیکھتے
ایک ہچکی پر ہے قائم زندگانی کا نظام
یاد ہی کر کےکبھی ائے بندہ پرور دیکھتے
بزمِ عالَم میں ہر اِک دل تھا کدورت در بغل
کتنے آئینوں کو ہم صادقؔ مُکدّر دیکھتے
 

الف عین

لائبریرین
اب تو آداب محبّت میں یہ کامل ہوگیا
اب تو اُن کی نذر کے قبل مِرا دل ہو گیا
گریۂ زنداں بقدرِ ذوق حاصل ہوگیا
جوبھی آنسو آنکھ سے ٹپکا سلاسل ہوگیا
پوچھنا کیا اس کی بےپایاں مساعی کا مآل
آکے جو منزل پہ بھی مایوس منزل ہو گیا
یاس نے امید بخشی درد نے بخشا سُکوں
کچھ عجب صورت سےاطمینان حاصل ہو گیا
پھر اُبھارا دل نے تجدید محبّت کےلءے
پھر یہ ناواقف آداب محفل ہوگیا
ہو چکا تقسیم جب بزمِ ازل میں اضطراب
ایک حصہ بچ رہا ہے وہ مِرا دل ہوگیا
لطف کی نظروں سے دیکھا تو نے اس معتوب کو
آج پھر صادقؔ تری محفل کے قابل ہو گیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
 

الف عین

لائبریرین
اُن سےپھر رسم و راہ کرتا ہوں
اپنی ہستی تباہ کرتا ہوں
عزم تجدید آہ کرتا ہوں
آج پھر ایک گناہ کرتا ہوں
دل کی جُرأت تباہ کرتا ہوں
اب نگاہوں سے آہ کرتا ہوں
اُن کی ہلکی سی اِک نظر کے لیے
زندگی و تباہ کرتا ہوں
جس کا آغاز ہے سکوں انجام
آج صادقؔ وہ آہ کرتا ہوں
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
 

الف عین

لائبریرین
حدِ نگاہ تجسّس میں لاکے دیکھ لیا
تعیّنات کے پردے اٹھا کےدیکھ لیا
وہی تجلی دل کش وہی ہے جلوۂ خاص
قریب و دُور سے آنکھیں مِلا کے دیکھ لیا
عیاں ہوا نہ کوئی انقلاب الفت میں
ہزار طور سے دل کو مٹا کے دیکھ لیا
مِلا نہ عشق کا ہم کو صلا قیامت تک
نظر سے خود کو بھی اکثر گرا کے دیکھ لیا
تمہارا حُسن جو تھا منتشر زمانے میں
اُسے بھی حدِّ محبّت میں لاکے دیکھ لیا
ہوا نہ انجمن آرائےعاشقی کوئی
ہر ایک گوشۂ دل کو سجا کے دیکھ لیا
جفا کی دوسری تصویر ہے وہ اے صادقؔ
وفائے دوست کو بھی آزما کے دیکھ لیا
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
 
Top