نذرِ اقبال۔۔۔ثمینہ راجہ

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
رات جوان ہوگئ پرتوِ ماہتاب سے
موجِ ہوا کے ساتھ ساتھ کھلنے لگے گلاب سے

عشق میں جیسے زندگی کوئی فسانہ بن گئی
عام سے واقعات بھی ہوگئے خواب خواب سے

ہم نے تو ریگِ ہجر پر،پالیئے نقشِ پائے یاد
ہم نے تو راستہ لیا دشت میں اک سراب سے

لب پہ نہ آسکی اگر شدتِ دل تو کیا ہوا
آنکھ تو خون ہوگئی سوزشِ اضطراب سے

تو شبِ پرفشاں کبھی ہم پہ جو ہوتی مہرباں
چین کی نیند مانگتے ایک قدیم خواب سے

اب تو وہ سخت جاں بھی ہیں سوختہ دل کہ جو یہاں
بچ کے چلے نہ تھے کبھی حدتِ آفتاب سے

حیرتِ زندگی سے ہے ۔۔۔حیرتِ آئنہ اگر
کس کو خبرکہ آنکھ میں نور ہے کس کی تاب سے

عشق کی اپنی آن ہے،فقر کی اپنی شان ہے
فرق ہے ان کا ذائقہ،لذتِ نان و آب سے

حرف میں میرے کر ظہور اے میرے آتشِ نہاں
"طبعِ زمانہ تازہ کر جلوہء بے حجاب سے"
 
Top