نت نئے مراسم بڑھانا اسکی عادت ہے

نت نئے مراسم بڑھانا اسکی عادت ہے
روز نیا اک ساتھی بنانا اسکی عادت ہے

بلبل سے نہ کر امیدِ وفا ارے ناداں
گئی بہار تو رخصت ہوجانا اسکی عادت ہے

دامِ صیاد میں پھنس کر آہ و زاری کیسی
ہر روز قتل کا پھر بہانہ اسکی عادت ہے

لگا کر گھاؤ نادم ہو کیسے ممکن ہے یہ
روز اک زخم نیا لگانا اسکی عادت ہے

وعدے کو نہ ایفا کرنا فطرتِ ثانی ہے اسکی
آنکھوں کو نئے خواب دکھانا اسکی عادت ہے

روتی آنکھوں کو ہنسا دے بات اک ناممکن سی
ہنستے چہروں کو رلانا اسکی عادت ہے

اس سفر پہ تنہا وہ تجھ کو بھی چھوڑ گیا
کسی کا بھی نہ ساتھ نبھانا اسکی عادت ہے

سچ تو یہ ہے بزم دوراں جب کبھی موقع ملا
ہر بار دل کو پھر سجانا اسکی عادت ہے

×××××××××××××
 
Top