نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام حجت کیوں ؟

شمشاد

لائبریرین
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام حجت کیوں ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےقول ، فعل ، تقریر ، اور صفت نقل کرنے کوحدیث کہا جاتا ہے ۔ حدیث یا توقرآن مجید کے کسی حکم کی تاکید کرتی ہے جیسا کہ نماز ، روزہ یا پھر قرآن مجید کے حکم کی تفصیل ہوتی ہے جیسا کہ نماز میں رکعات کی تعداد ، اورزکاۃ کا نصاب ، اور حج کا طریقہ وغیرہ ۔ یا پھر ایسے حکم کوبیان کرتی ہے جس سے قرآن مجید نے خاموشی اختیار کی ہو مثلا عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ سے اکھٹے نکاح کرنے کی حرمت (یعنی بیوی اوراس کی خالہ یا پھوپھی جمع کرنا حرام ہے ) ۔

اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا اورلوگوں کے لیے اسے بیان کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
" ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کربیان کردیں ، شائد کہ وہ اس پر غوروفکر کریں" (سورۃ النحل 44 ) ۔

اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
" نہ توتمہارے ساتھی نے راہ گم کی ہے اور نہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ، وہ توصرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے" (سورۃ النجم 2 –4 )
-=--=====--=--
 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام حجت کیوں ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےقول ، فعل ، تقریر ، اور صفت نقل کرنے کوحدیث کہا جاتا ہے ۔ حدیث یا توقرآن مجید کے کسی حکم کی تاکید کرتی ہے جیسا کہ نماز ، روزہ یا پھر قرآن مجید کے حکم کی تفصیل ہوتی ہے جیسا کہ نماز میں رکعات کی تعداد ، اورزکاۃ کا نصاب ، اور حج کا طریقہ وغیرہ ۔ یا پھر ایسے حکم کوبیان کرتی ہے جس سے قرآن مجید نے خاموشی اختیار کی ہو مثلا عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ سے اکھٹے نکاح کرنے کی حرمت (یعنی بیوی اوراس کی خالہ یا پھوپھی جمع کرنا حرام ہے ) ۔

اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا اورلوگوں کے لیے اسے بیان کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
" ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کربیان کردیں ، شائد کہ وہ اس پر غوروفکر کریں" (سورۃ النحل 44 ) ۔

اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہے اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
" نہ توتمہارے ساتھی نے راہ گم کی ہے اور نہ ہی وہ ٹیڑھی راہ پر ہے ، اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ، وہ توصرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے" (سورۃ النجم 2 –4 )
-=--=====--=--
السلام علیکم! شمشاد بھائی​
بہت خوب!وہ دہن جسکی ہر بات وحی خدا؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ چشمہ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے انسانی معیشت کے اصول اور مبادی اجمالا بیان فرمائے ہیں جن کی تعبیر اور تشریح بغیر احادیث نبویہ کے ممکن نہیں ہے ۔ نیز احکام کی عملی صورت بیان کرنے کے لئے اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہے ۔احادیث طیبہ ہمیں قرآنی احکام کی عملی تصویر مہیا کرتی ہیں۔علاوہ ازیں مثلا صلوۃ؛ زکوۃ ؛تیمم ؛حج اور عمرہ یہ محض الفاظ ہیں؛ لغت عربی ہمیں ان الفاظ کے وہ معانی نہیں بتاتی جو شریعت میں مطلوب ہیں ۔ پس اگر احادیث کریمہ کی حجیت تسلیم نہ کی جائے تو ہمارے پاس قرآن کریم کے معانی شرعیہ متعین کرنے کا کوئی ذریعہ نہ رہے گا۔تو پھر قرآن عظیم کے احکام پرصحیح اعتقاد اور مراد الہی کے مطابق عمل کیسے ممکن ہو گا ؟

سو اس واسطے اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقواال وافعال مبارکہ کی پیروی کا حکم فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:1: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ (النساء: پ 5:آیت 59)
2:رسول تم کو جو حکم دیں وہ لے لو؛ اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ۔ ( الحشر: پ 28:آیت: 07)
3:آپ فرما دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔(اٰل عمران:پ 3: آیت 31)
4: جس نے رسول کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔(النساء:پ:5: آیت 80)
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت اور آپ کے افعال کی اتباع قیامت تک کےمسلمانوں کے لئے واجب ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بعد کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے احکام اور آپ کےافعال کا کس ذریعے سے علم ہوگا ۔اللہ تعالی نے آپ کی زندگی کو ہمارے لئے نمونہ بنایا ہے پس جب تک آپ کی زندگی ہمارے سامنے نہ ہو تو ہم اپنی زندگی کو اسوہ حسنہ میں کیسے ڈھال سکیں گے ۔اور اسوہ رسول پر اطلاع صرف احادیث سے ہی ممکن ہے تو واضح ہوا کہ اللہ کے نزدیک جس طرح صحابہ کرام کے لئے بنفس نفیس آپ کی ذات اور ارشادات ہدایت تھے اسی طرح قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے بھی ہدایت ہیں تو ثابت ہوا کہ احادیث کریمہ بھی حجت شرعی ہیں ۔
 
Top