نبی اکرم کی شانِ رحمت

نبی اکرم کی شانِ رحمت


25 جنوری 2013

حافظ عاکف سعید
ربیع الاوّل کے مہینہ کو نبی اکرم سے خاص نسبت ہے۔ اِس کی 12 تاریخ آپ کی تاریخ وصال ہے اور ایک رائے کے مطابق یہی آپ کی تاریخ ولادت بھی ہے۔ چنانچہ اِسی نسبت سے اِس دن میلادالنبی منایا جاتا ہے۔ بلاشبہ رسول اللہ سے ہر مسلمان عقیدت و محبت اور جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔ بنابریں ربیع الاوّل کے ان ابتدائی ایام میں سیرت کی محافل منعقد ہوتی ہیں، جن میں آپ کی بلند مرتبت اور عظیم الشان شخصیت کی عظمت کے پہلوﺅں پرگفتگو ہوتی ہے،آپ کے مناقب کا تذکرہ ہوتاہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم نبی اکرم کی عظمت کا ادراک کریں تو یہ بات ہمارے لیے ناممکن ہے۔ ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعد اِس کائنات میں سب سے زیادہ قابل احترام ہستی حضرت محمد کی ہے۔”بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں آپ کی عظمت کے بعض پہلوﺅں کا ذکر کیا ہے، اُن میں سے ایک آپ کی شان رحمت ہے جس کا تذکرہ سورة الانبیاءمیں کیا گیا ہے۔ فرمایا: ترجمہ:”اور (اے نبی) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر۔ “ (الانبیائ: 107)آپ کی ذاتِ گرامی کس کس پہلو سے رحمت ہے۔ ہم کلیتہً اِس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ بہرحال یہ واضح ہے کہ آپ کی ذات، آپ کا پیغام ہدایت اور آپ کا عطا کردہ دین اور نظام عدل اجتماعی پوری نوع انسانی کے لیے رحمت کا سامان ہے۔
نبی اکرم کی رحمت للعالمینی ویسے تو عام ہے لیکن رحمت خاص اُن لوگوں کے لیے ہے جو آپ پر ایمان لانے والے ہیں اور آپ کی اتباع کرنے والے ہیں۔ یعنی اگر کوئی پہلے سے یہودی یا عیسائی تھا مگر اس دورمیں پیدا ہوا جو نبی کی رسالت کا دور تھا تو وہ آنحضرت پر ایمان لائے گا اور آپ کا اتباع کرے گا تو ہی اللہ کی رحمت کا مستحق ٹھہرے گا۔آگے نبی اکرم کی رحمت للعالمینی کے جو مختلف پہلو ہیں اُن میں سے بعض کا تذکرہ ہے۔آپ کی رحمت للعالمینی کا پہلا مظہر یہ ہے کہ: ترجمہ:”جو (نبی) معروف کاحکم دیتے ہیں اورمنکر سے روکتے ہیں۔“
نبی اکرم کی رحمت کا مظہر یہ بھی ہے کہ آپ نے انسانیت کو ناروا بوجھوں اور غلامی کے طوقوں سے نجات دلائی۔ فرمایا:ترجمہ:”اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔“اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ جسے مفسرین نے بیان کیا ہے کہ پچھلی امتوں کی شریعتوں میں بعض احکامات بڑے سخت تھے۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے اس امت کے لیے بہت آسانیاں پیدا فرمائیں۔
آپ کی رحمت للعالمینی کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے بنی نوع انسان کو ناروا بوجھوں سے نجات دلائی۔ یہ ناروا معاشرتی رسومات کے بوجھ تھے، جن کے نیچے انسانیت کراہ رہی تھی۔مثلاً پیدائش، وفات اور شادی بیاہ کی رسومات وغیرہ۔ ان رسومات کی ابتدا بالعموم امیر طبقات سے ہوتی ہے، مگر جب ایک دفعہ یہ شروع ہو جاتی ہیں تو پھر سب لوگ انہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ اِن کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر یہ "Social Compulsion" بن جاتی ہیں۔ چنانچہ معاشرہ کی عظےم اکثریت ان کے بوجھ تلے پس کر رہ جاتی ہے لیکن خواہی نواہی انہیں انجام دینا پڑتاہے۔ افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ انہی رسومات میں جکڑا ہوا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی رحمت کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
بشکریہ: نوائے وقت
 
Top