نام نہاد

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جب منہاج القرآن والوں نے سپو کن انگلش کا کورس کرایا تو لیکچر دینے کے بعد سر اکرام صا حب نے ’ رد قادیانیت ‘ کورس کے بارے میں بتانا شروع کیا جس کا اشتہار ڈائیز پر لگا ہوا تھا ، انہوں نے ایک بتایا کہ ان کا ایک دوست تھا جو کہ پا نچویں کلا س سے ان کے ساتھ تھا اور میٹرک انہوں نے ساتھ ساتھ کیا ، ایک ساتھ کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے ، گھومتے، پڑھتے، ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہو تے ، کرتے کرتے انہوں نے ایف ایس سی کر لی، سر اکرام کو پتا تھا کہ وہ قادیانی ہے، ایک دن ان کو کسی دوست نے رد قادیانیت کورس کے بارے میں بتایا اور اس کو کرنے کے بعد انہوں نے اپنے اس دوست سے جو کہ قادیانی تھا دوستی توڑنے کا فیصلہ کیا ، اور ہوتا یہ کہ جب بھی وہ ان کے گھر جاتا تو سر نے اپنے گھر والوں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر وہ آئے تو اسے کہہ دیا جائے میں گھر پہ نہیں ہوں،ا یک دن اتفاق سے جب وہ آیا تو سر گلی میں ہی کھڑے تھے ، اس نے دیکھ لیا اور پو چھا تو سر نے اسے کہا کہ تم قادیانی ہو اس لئے میں تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا، وہ اس بات پر خاصا پریشان ہو ا اور کہنے لگا کہ تم آؤ ہم بیٹھ کر بات کرتے ہیں ، سر نے کہا کہ ابھی تو مجھے جانا ہے تم شام کو مجھے مسجد میں ملنا،
شام کو وہ مسجد گیا اور سر کو باہر بلوایا ، تو سر نے کہا کہ تم اند ر آجاؤ،
اس نے جواب دیا کہ ہمارا تمھاری مسجد میں آنا حرام ہے ، خیر سر باہر گئے ،
طے یہ ہوا کہ مذہبی دلائل پر بات ہو گی اور اگر وہ ہار گیا تو آئندہ وہ کبھی سر سے نہیں ملے گا،
اور ایسا ہی ہوا کہ وہ ہار گیا،
سر کے مطابق انہوں نے کئی بار اس کو اپنے گھر کے پاس منڈلاتے دیکھا اور جب سر کی والدہ خرابی طبیعت کی وجہ سے ہسپتال داخل تھیں تو بھی وہ ہسپتال گیا ، سر کی بہن کی شادی تھی اور وہ تب بھی میرج حال کے باہر دیکھا گیا مگر سرسے کبھی نہیں ملا۔۔
یہ تو سر کا نقطہ نظر تھا،
میرا نقطہ نظر ذرا ا س سے مختلف ہے، میں بہت زیادہ مذہب کو پرچار کرنے والی لڑکی نہیں ہوں اس لئے شاید کہ میں نے بھی مذہب کو اتنا ہی پڑھا جتنا وہ میرے کورس کی کتابو ں میں تھا، قرآن پاک پڑھا، کچھ مستند احادیث پڑھیں۔
مگر میں اس بات پر ہر گز اتفاق نہیں کرتی کہ اگر کوئی مسلما ن نہیں ہے تو اسے یہ حق ہی نا دیا جائے کہ وہ آپ سے بات بھی نہیں کر سکتا، مسلمان ، ہندو،سکھ، عیسائی ، یہودی ، کافر، یہ سب ہو نے پہلے انسان ہیں،
کیا انسانوں میں یہ چیز مشترک نہیں کہ وہ آدم کی اولاد ہیں ؟؟؟
کیا یہ چیز مشترک نہیں کہ انکو بھی اُس ذات نے پیدا کیا جس نے ہمیں پیدا کیا؟؟
میری پہچان یہ ہے کہ مجھے اللہ نے پیدا کیا، میں حضرت آدم کی اولاد ہو، میں حضرت محمد ﷺ کی امت میں سے ہوں،پاکستا نی ہوں، آرائیوں کی برادری سے تعلق ہے ، میرے والد صاحب کا نا م میری شناخت کا سبب ہے ، میری سوچ، میرے اعمال، میری ذات کی شاخت کرتے ہیں۔
مگر اس سب سے قطع نظر ، اور ان سب کا ہونا صر ف اس لئے ہے کہ میں ایک انسا ن ہوں جسکو اللہ تعالیٰ نے اپنا نائب بنایا ،
یہ ٹھیک ہے کہ مجھے ان سب باتوں پر فخر ہو نا چاہئے ، مگر یہ سب مجھے کسی ایسے انسان سے بات کرنے کو نہیں روک سکتا جس کا تعلق کسی اور مذ ہب اور عقیدے سے ہو، نبی اکر م ﷺ اگر تبلیغ اسلا م سے قبل یہ سوچتے کہ میرا کافروں سے کوئی تعلق نہیں تو ہم آج مسلمان کیسے ہو تے!!!
اور اللہ تعالیٰ پھر صرف مسلمانوں کو ہی کھانے کو کیوں نہیں دیتا؟؟ ساری دنیا کو کیوں دیتا؟؟؟ چاہے وہ کافر ہیں یا مسلمان!!! جو اللہ کونہیں مانتے وہ انکو بھی دیتا ہے پھر ہمیں یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ ہم صر ف ایک انسان کو اس لئے نظر انداز کریں کہ وہ ہمارے مذہب کا نہیں ہے!
حیرت ہے پاکستان امریکہ سے امداد لے کر کھا تا ہے ، کوئی اس پر فتوی کیوں نہیں دیتا کہ کیوں کافروں سے امداد لیتے ہو!


ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ میری اس بات سے اتفا ق نا کریں ، اور یہ ضروری بھی نہیں، یہ صرف میرا نقطہ نظر ہےمجھے ہر وہ انسان اچھا لگتا ہے جسے ساری دنیا بُرا سمجھتی ہے، اور میں ہر اس انسان کو معاف کر دیتی ہوں جو میری ذات کو نشانہ بناتا ہے، وقتی غصہ اپنی جگہ مگر میری عادت ہی ایسی ہے کہ میں ان لوگوں سے خود جا کر مل لیتی ہوں ، اپنے دل میں کوئی بات نہیں رکھتی ، ابھی کچھ دن پہلے ہی میری چند دوستوں نے مجھے کہا کہ تم میں سیلف رسپیکٹ نہیں ہے۔ ایسا ہی ہو گا ۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کسی نے میرے ساتھ غلط کیا تو یہ اس کا عمل ہے، اور اگر کوئی غلط ہے تو یہ بھی اس کا مسئلہ ہے، لیکن اگر میں اپنی نام نہاد انا، غیرت مندی اور سیلف رسپیکٹ کو لے کے بیٹھی رہوں گی تو مجھ میں اور ا س میں کوئی فرق نہیں رہے گا ایسی نام نہاد مسلمان بننے سے کہ میری ذات سے کسی کو دل ٹوٹے میں انسان بھلی ہوں ۔ اور اسی میں ہی خوش ہوں۔۔
 
آج ہماری ننھی پری نے ناشتے میں کیا کھا لیا؟ :)

بٹیا رانی قصہ یہ ہے کہ آپ جنھیں برا سمجھتے ہیں ان سے بات چیت کے راستے بھی مسدود کر دیں گے تو پھر اس تک اچھائی کا پیغام پہونچانے کا راستہ بھی مسدود ہو جائے گا۔ :)
 

ساجد

محفلین
ناعمہ عزیز ، بہت مثبت سوچ ہے آپ کی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ جو آپ کے ان خوبصورت خیالات پر داد کا حق ادا کر سکیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپنے سر کو ایک دفعہ پاکستان سے باہر بھجواؤ، کسی یورپی ملک میں نہ سہی، ساتھ ہی بھارت ہے، انہیں کہو کہ وہاں کا ایک چکر لگا آئیں۔
 

حماد

محفلین
کاش یہ بات مذھب کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کو بھی سمجھ آ جائے. اور میں بھی یہی کہوں گا کہ اتنے خوبصورت اور انسان دوست تحریر کی تعریف کیلیے مجھے بھی شایان شان الفاظ نہیں مل رہے .
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بہت شکریہ حماد لالہ اور ساجد لالہ :)
مجھے پہلی بار کچھ لکھتے ہوئے لگا تھا کہ اس پر بہت تنقید ہو گی کہ میں ایسا سوچتی ہوں پر اس تنقید کی پروا کیے بنا میں نے لکھا اور آپ کا یہ کہہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ میرا فیصلہ غلط نہیں تھا :)
 

عین عین

لائبریرین
میں یہاں ایک اور سوال اٹھا رہا ہوں۔ جو میں نے بعض مولویوں کے سامنے کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرنے پر سنے ہیں۔ ان کی بات پر میرا دل مطمئن نہیں ہوا۔ ناعمہ کی جذباتی تحریر بہت عمدہ ہے۔ اچھا لگا۔ ناعمہ کے لیے ایک شعر پیش کر رہا ہوں
یہ لڑکی لکھی پڑھی ہو گئی ہے
اب چوں کہ بہت بڑی ہو گئی ہے
اپنی تحریروں سے ناعمہ گڑیا
اردو محفل کی پھلجھڑی ہو گئی ہے
(واہ وا) بہت خوب عارف صاحب،
آداب آداب، عنایت
دراصل میں خود بھی اس گتھی کو نہیں سلجھا سکا، میں اس بات کو سمجھنا چاہتا ہوں جو اب میں بتانے جا رہا ہوں۔ اور یہاں مختلف الخیال لوگ ہیں تو امید ہے کافی باتیں سامنے آئیں گی۔
بات یہ ہے: فرض کیا کوئی ہمارے باپ کو گالی دے، برا بھلا کہے، ہمارے بڑوں کی تضحیک کرے، ان کی عادات باتوں کو موڑ توڑ کر پیش کرے اور کسی بھی طرح ہمارے خاندان یا ہمارے گھر میں دراڑ ڈالے، کوئی رنجش پیدا کرے۔ گھروالوں کو بانٹنے اور توڑنے کی کوشش کرے، اس کی وجہ سے فساد کی صورت جنم لے اور ہماری رسوائی ہو، اور اس سے بڑھ کر ہمارے والدین یا بزرگوں کی توہین کرے، تو کیا ہم ان کئی باتوں مین سے ایک بات بھی پائی جائے تو اس شخص سے رابطہ رکھنے یا اس سے محبت کرنے کی ہمت کریں گے؟

ممکن ہے ہم اسے سمجھائیں اور روکیں، ایک بار دو بار تین چار پانچ چھے اور ہزاروں مرتبہ، لیکن وہ ہمارے باپ کو گالی دینے، توہین کرنے اور ان کے بارے میں غلط باتیں پھیلانے میں پیش پیش ہو اور ان کی تعلیمات کو یا ان کے اصولوں کے خلاف اور ان کی کہی ہوئی بات کے الٹ کرے جس کے نتائج اس فیملی، یا دو افراد کے بیچ تفرقہ ڈالیں، انہیں کمزور بنائیں تو ہم کیا اس سے سماجی میل جول رکھتے ہیں؟ اسے اپنے گھر میں خوش آمدید کہتے ہیں؟
اگر نہیں تو جو ہمارے رسول ، امہات المومنین، اور ان کے گھرانے کے بارے میں برا خیال کرے اور رسول کی عام اور انتہائی معروف تعلیمات اور قرآن کے واضح ترین حکم میں من چاہی تبدیلی کر کے اس سے اپنا مطلب نکالے اور سمجھانے پر باز نہ آتا ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ خوش دلی سے پیش آنا یا اسے تنہا کرنا یا سماجی بائیکاٹ کر کے کمزور بنانا چاہیے
محفلین ! یہ میرے خیالات نہں ہیں، براہ کرم مجھے اس بحث میں ایک جانب کر کے مجھ پر یلغار نہین کیجیے گا۔ میں خود آپ کے ساتھ اس معاملے کو سمجھنا چاہتا ہوں۔
ناعمہ میدان مین آ جاو
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
شعر بہت پسند آیا مجھے :)

اب ذرا آپ کی باتوں کی جواب میں ، میں اپنے ناقص خیالات کا اظہار کرتی ہوں، آپ میری باتوں سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں یہ ضروری نہیں :)

آپ نے کہا

دراصل میں خود بھی اس گتھی کو نہیں سلجھا سکا، میں اس بات کو سمجھنا چاہتا ہوں جو اب میں بتانے جا رہا ہوں۔ اور یہاں مختلف الخیال لوگ ہیں تو امید ہے کافی باتیں سامنے آئیں گی۔
بات یہ ہے: فرض کیا کوئی ہمارے باپ کو گالی دے، برا بھلا کہے، ہمارے بڑوں کی تضحیک کرے، ان کی عادات باتوں کو موڑ توڑ کر پیش کرے اور کسی بھی طرح ہمارے خاندان یا ہمارے گھر میں دراڑ ڈالے، کوئی رنجش پیدا کرے۔ گھروالوں کو بانٹنے اور توڑنے کی کوشش کرے، اس کی وجہ سے فساد کی صورت جنم لے اور ہماری رسوائی ہو، اور اس سے بڑھ کر ہمارے والدین یا بزرگوں کی توہین کرے، تو کیا ہم ان کئی باتوں مین سے ایک بات بھی پائی جائے تو اس شخص سے رابطہ رکھنے یا اس سے محبت کرنے کی ہمت کریں گے؟

ممکن ہے ہم اسے سمجھائیں اور روکیں، ایک بار دو بار تین چار پانچ چھے اور ہزاروں مرتبہ، لیکن وہ ہمارے باپ کو گالی دینے، توہین کرنے اور ان کے بارے میں غلط باتیں پھیلانے میں پیش پیش ہو اور ان کی تعلیمات کو یا ان کے اصولوں کے خلاف اور ان کی کہی ہوئی بات کے الٹ کرے جس کے نتائج اس فیملی، یا دو افراد کے بیچ تفرقہ ڈالیں، انہیں کمزور بنائیں تو ہم کیا اس سے سماجی میل جول رکھتے ہیں؟ اسے اپنے گھر میں خوش آمدید کہتے ہیں؟


بلاشبہ یہ ایک غلط بات ہے کہ کوئی آپ کی تضحیک کرے ، آپ کو بُرا کہے، انسا ن الٖفاظ اور اس کی سوچ اس کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں،
یہاں میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں ، میں فسٹ ائیر میں تھی جب ایک لڑکی میری دوست بنی، بہت اچھی تھی، تین سال تک اچھی ہی رہی ، میں پڑھائی کے علاوہ بھی اس سے بہت سے باتیں کر لیا کرتی تھی،
کہتے ہیں گھر کا بھیدی اگر دشمن بن جائے تو زیادہ خطرناک ہو تا ہے، ایک نے بنیاد بات کو سہارا بنا کر ا س نے میری نے میرے بارے میں وہ کچھ کہا جسے سن کر کوئی بھی نام نہاد غیرت مند اس کا منہ توڑ دیتا، میں نے اپنا راستہ الگ کر لیا، پر اس نے میری ذات کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں چھوڑا،
بعدا زان جب اس نے انتہا کر دی اور میری ہمت جواب دے گئی تو میں خود اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور میں نے اُسے کہا وہ کچھ یوں تھا۔۔
’’ ابے تیرے جیسا دشمن ہو تو دوست کی کیا ضرورت ہے، یار تم نے مجھے کتنا غلط کہا کیا کبھی میرے منہ سے اپنے بارے میں کوئی بھی لفظ غلط سنا؟؟ کوئی ایسی لڑکی بتا کہ جسکو میں نے تمھارے بارے میں کچھ بھی غلط کہا ہو؟؟
وہ چپ رہی، تم نے ایک غلطی کی ، میں تم سے ناراض ہوئی اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ تم میری ذات کو نشانہ بنائی جاتی تم ایک بار سوری بال دیتی میں اسی وقت مان جاتی ، پھر بار بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
وہ پھر چُپ رہی، میں نے کہا چل ٹھیک ہے آج تک تم نے میرے ساتھ جو غلط کیا وہ سب میں تم کو معاف کرتی ہوں دل سے،
اب تو میری طرف دیکھ لو ، اور جب اس نے سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

بات ظرف کی ہوتی ہے عارف لالہ ، ہمیں اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ رات کی سیا ہی ہو دن کی اُجالے سے ختم کر تے ہیں، بات صرف غور کرنے کی ہے، اور غور کرنےوالوں کے لئے ہی نشانیاں ہیٕں۔
پر ہم غور نہیں کرتے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اچھے ہیں تو اچھائی کا ثبوت دیں ورنہ خود کو اچھا مت سمجھیں۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اگر نہیں تو جو ہمارے رسول ، امہات المومنین، اور ان کے گھرانے کے بارے میں برا خیال کرے اور رسول کی عام اور انتہائی معروف تعلیمات اور قرآن کے واضح ترین حکم میں من چاہی تبدیلی کر کے اس سے اپنا مطلب نکالے اور سمجھانے پر باز نہ آتا ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ خوش دلی سے پیش آنا یا اسے تنہا کرنا یا سماجی بائیکاٹ کر کے کمزور بنانا چاہیے
محفلین ! یہ میرے خیالات نہں ہیں، براہ کرم مجھے اس بحث میں ایک جانب کر کے مجھ پر یلغار نہین کیجیے گا۔ میں خود آپ کے ساتھ اس معاملے کو سمجھنا چاہتا ہوں۔

آپ مجھے اس پر ایک سوال کا جواب دیں کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے بھی زیادہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کر سکتے ہیں؟؟؟؟
آپ کونہیں لگتا کہ نفرت سے نفرت ہی جنم لے گی؟؟؟
آپ کے کمرے میں اندھیرا ہو تو لائٹ کیوں آن کرتے ہیں آپ ؟؟؟ اندھیرے سے ہی کام کیوں نہیں چلا لیتے؟؟؟
چل نہیں سکتا کیا؟؟
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آپ اس نیت سے ان کا بائیکاٹ کریں اور ان سے نفرت کریں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ، اور آپ سے اس نفرت سے وہ اور گستاخیاں کریں آپ کو یہ بہتر لگتا ہے یا پھر یہ کہ
آپ ان سے محبت سے پیش آئیں ، انہیں اپنے رویئے اخلاق سے زیر کریں اور وہ آپ سے متاثر ہو کر اچھائی کا راستہ اختیار کریں ، ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا یہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت نہیں کہ جیسے انہوں سے اپنے دشمنوں کو اپنے اخلاق سے زیر سے اسلام کی تبلیغ کی ہم بھی وہ راستی اختیا کریں؟؟؟
اچھے کام میں رکاوٹ ہوتی ہے اور دیر بھی لیکن صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔
پر ہماری بدقستمی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں :)
 

ساجد

محفلین
"برائی کا جواب اچھائی سے دینا" یہ دین اسلام کا خاصہ ہے جسے ہم فراموش کر چکے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ "اے ایمان والو، صبر اور صلاہ سے کام لو"۔ صلاۃ کا لفظی مطلب ہے دعا ۔ یعنی اپنے دشمن کے لئیے بھی دعا (اللہ تعالی سے اس کے لئیے صراط مستقیم کا سوال کرنا)۔ طائف کے بازار کا منظر چشم تصور میں لائیے کہ جس میں رحمت للعالمین کے پاؤں تک خون بہہ رہا ہے لیکن آپ اس بستی کے مکینوں کے لئیے بد دعا تک نہیں کرتے بلکہ ان کی آنے والی نسلوں پر امید کا اظہار فرماتے ہیں۔ پھر مکہ کی گلیوں میں آئیے کہ جہاں کوڑے کی ٹوکری اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر انڈیلی جاتی ہے اور جس دن اس کا ناغہ ہو جاتا ہے تو آپ اس گھر کی مکین کی خبر گیری کرنے تشریف لے جاتے ہیں اور دیکھئیے کہ قرآن کی بیان کردہ آیت کی کس خوبصورت انداز میں عملی تصویر پیش کی گئی۔ آج ہمیں بھی اسی اسوہ حسنہ سے سبق سیکھنا ہے۔
معاشرتی طور پہ ہم تشدد آمیز رویوں کے مالک ہیں۔ اسے صرف مذہب تک ہی موقوف مت سمجھئیے۔ سڑک پر چلتے ہوئے کوئی ہم سے غلطی سے بھی ٹکرا جائے تو فریقین میں سے سوری کہنے کی توفیق کسی کو نہیں ہوتی بلکہ بھنویں تن جاتی ہیں۔ ہمارے مزاج کے خلاف بات ہو جائے تو موٹی سی گالی ہماری زبان سے ٹپک پڑتی ہے۔ اس روئیے کو ذہن میں رکھ کر ذرا سوچئیے کہ ہم مذہب کے معاملہ میں بھی ایسے ہی نہیں ہیں؟ یہاں "ہم" سے میرا مطلب ہے تمام پاکستانی ،جس میں مسلم یا غیر مسلم سب شامل ہیں۔ جب ہماری برداشت اور تحمل کا یہ عالم ہو گا تو نفرت تو جنم لے گی نا!!!۔ اخلاق ، پیار ، محبت ، درگزر ، دلیل اور استقامت کا دامن کسی حال میں بھی نہیں چھوٹنا چاہئیے اور یہی ایک اچھے انسان کی نشانی ہے۔
اغیار ہماری بھڑکنے کی "خاصیت" سے خوب واقف ہیں اور اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے اسے بڑے آرام سے ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں اور ہم مزید بھڑکتے ہیں تو ان کا کام مزید آسان ہو جا تا ہے۔ میری آخری بات کو پاکستان کی موجودہ صورت حال اور ماضی قریب کے عالمی واقعات کے تناظر میں دیکھئیے تو پاکستان میں معاشی اور معاشرتی ابتری اور فکری بحران کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔
 
آپ نے اچھے انداز ميں اپنی بات كہی ہے ناعمہ۔ بحيثيت مسلمان اگر ميرا سابقہ ايسے حالات سے ہو تو ميں ديكھوں گی کہ ايسے لوگوں كى دوستى اور محبت كے بارے ميں قرآن كريم كا كيا حكم ہے؟ اور نبی كريم حضرت محمد صلى الله عليہ وسلم كى سيرت ، اور پھر صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كا طرز عمل كيسا رہا ہے؟ اس معاملے ميں ميرے ذاتى رجحانات كى بارى سب سے آخر ميں آتى ہے۔
 

دوست

محفلین
بدقسمتی یہ ہے کہ محمد الرسول اللہ ﷺ کی زندگی سے جب مثالیں پیش کی جاتی ہیں کہ انہوں نے پتھر کھا کر بھی دعا دی، اور کوڑا پھینکنے والی کی بھی عیادت کو گئے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسلام کے پاس طاقت نہیں تھی۔ اور اب جبکہ اسلام کے پاس "طاقت" ہے تو اسے استعمال کیا جانا چاہیے۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوا دیا، جنہیں وہ مسجد کہتے ہیں انہیں جماعت خانے قرار دلوا دیا، جسے وہ اذان کہتے ہے اسے کہنے سے رکوا دیا، اور اب جب ان کے بچے اسکولوں میں پڑھتے ہیں تو انہیں پڑھنے نہیں دیا جاتا، دھمکیاں ملتی ہیں، اسکول سے نکال دیا جاتا ہے اور پیرو محمد الرسول اللہ ﷺ کے کہلوایا جاتا ہے۔ ایک دس بارہ سال کے قادیانی بچے کا کیا قصور ہے صرف یہ کہ اس کے ماں باپ قادیانی ہیں؟ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بخدا مجھ سے بڑا قادیانیوں کا نظریاتی دشمن کوئی نہ ہو گا، کوئی مائی کا لال آئے اور مجھ سے مرزا صاحب کے کردار پر بحث کر لے، لیکن میں اس بنیاد پر اس کی اولاد، مال اور اقارب کو قتل نہیں کروں گا۔ میں دلیل سے بات کروں گا، زبان سے بات کروں گا، بندوق سے نہیں۔ بندوق سے وہ بات کرتے ہیں جن کے پاس الفاظ ختم ہو جاتے ہیں۔ لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کرنے والے، پورے پنجاب میں ان کو ہراساں کرنے والے وہ ہیں جن کے پاس الفاظ ختم ہو گئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس محمد الرسول اللہ ﷺ کی محبت ہے، میں کہتا ہوں ان کے پاس جہنم کے نچلے ترین درجے کی آگ سے بنی نفرت باقی رہ گئی ہے۔ وہ نبی ﷺ کی محبت میں اتنے اندھے ہو گئے کہ ان ﷺ کی تعلیمات بھول بیٹھے۔ اور دیکھو اس نام نہاد محبت نے کہاں لا کھڑا کیا۔ قادیانی اندر ہی اندر گھستے گئے، انہیں پتا لگ گیا کہ باہر رہے تو مارے گئے، اوپر اللہ اللہ اندر رام رام۔ قادیانی صیہونی بن گئے، جو جہاں جس عہدے پر ہے وہ قادیانی کو فوقیت دے گا اسی کی فیور کرے گا۔ اور ایک بات اور بتاتا چلوں، مولویوں نے جتنا شور ڈالا ہوا ہے کہ قادیانی یہ قادیانی وہ، ان کا بس چلے تو ان کی بستیوں کو جلا ڈالیں۔ قادیانی یہیں رہتے ہیں، ہمارے آس پاس رہتے ہیں، ہماری طرح رہتے ہیں، ہم سے ملتے ہیں، ہماری خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں اور ہم ان کی۔ میری والدہ کی پھوپھی قادیانیوں کے ہاں بیاہی گئی، بعد میں پتا چلا کہ شوہر تو قادیانی ہے لیکن انہوں نے اسے رام کر لیا۔ اس کے تین چار بیٹے اور سات آٹھ بیٹیاں ہیں۔ آگے ان کی اولادیں ہیں۔ اور سارے قادیانی ہیں، پکے کٹڑ اور اس کے دامادوں میں قادیانی مبلغ بھی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے میری والدہ اپنی اسی بیمار پھوپھی کی عیادت کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ میں اس کے بیٹے اور بیٹی کے بیاہ میں شریک ہو چکا ہوں، میری والدہ اس کے شوہر کے مرنے پر جا چکی ہیں، والد اس کا جنازہ پڑھ چکے ہیں۔ جو کچھ مولوی پیش کرتے ہیں، جو کچھ یہ بندوق بردار سوچتے ہیں حقیقت اتنی سیدھی نہیں ہے۔ ہمیں یہاں رہنا ہے بھائی، یہیں انہیں لوگوں کے درمیان، ایک کا سر پھاڑیں گے تو اس کی جنس کا کوئی کل میرا، یا میرے لوگوں میں سے کسی کا سر پھاڑ دے گا۔ یہ بندوق بردار دہشت گرد، خدا غارت کرے انہیں، انہوں نے تو قتل کر کے فرار ہو جانا ہے، یا جہنم کا ایندھن بن جانا ہے۔ میں کدھر جاؤں گا بھائی، میں نے تو اسی معاشرے میں رہنا ہے۔ اب سڑکوں پر بھی تو دیواریں کھڑی نہیں کر سکتا۔ تو بھائی مجھے رواداری سے رہنا پڑے گا، دنیا داری نبھانی پڑے گی، جیسے نبی ﷺ کے دور میں صحابہ نے مشرک اعزا و اقارب، پڑوسیوں سے نبھائی۔ تو میں نبھاتا ہوں، جب تک وہ میرے عقیدے پر بات نہیں کرتا میں اس کے عقیدے پر بات نہیں کروں گا۔ لیکن ۔۔۔۔ اگر اسے کوئی تکلیف ہو رہی ہے تو پھر میں بھی کم نہیں کرتا، ایسی کی تیسی میدان میں آئے اور بات کرے۔ جس کی ذریت میں سے یہ ہیں اس کی اصل کونسا کسی سے چھپی ہوئی ہے، اس نے ساری زندگی میں جتنے پینترے بدلے ہم سے زیادہ بہتر کون جانتا ہوگا مرزا جی کو کہ جسے مرنے کو بھی بیت الخلا نصیب ہوا۔ لیکن، جیو اور جینے دو کی پالیسی ضروری ہے۔ اگر نہیں تو بجلی، گیس، کرپشن، مہنگائی کے رونے روتے رہو گے اور مظاہرہ کرو گے ممتاز قادری جیسے دہشت گرد کے نام پر۔ مولویوں کے ہتھے چڑھ کر، جس نے حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کر کے ایک بےقصور کو قتل کیا۔ یاد رہے مقتول پر کسی بھی قسم کا الزام ثابت ہونا ابھی باقی تھا۔ اگر یہاں سارے ممتار قادری جیسے مذہب کے مامے بن جائیں تو ہم نے تو جی لیا سائیں پھر۔ جو اٹھا جہاں اٹھا قتل کرکے ہیرو بن گیا۔ شکر ہے، اللہ سائیں کا شکر ہے، اس کے نبی کا صدقہ ﷺ، ایسا نہیں ہے۔ ابھی عقل کے اندھے اتنے نہیں ہوئے کہ یہ قوم بندر کے ہاتھ آئی ماچس کی طرح اپنا آپ ہی جلا ڈالے۔
 
Top