نامعلوم

پتھر ہی لگیں گے تجھے ہر سمت سے آ کر
یہ جھوٹ کی دنیا ہے یہاں سچ نہ کہا کر
اب روتا ہے کیا تجھ سے کئی بار کہا تھا
حالات کے دھارے کے مخالف نہ بہا کر
 
پتھر ہی لگیں گے تجھے ہر سمت سے آکر
یہ جھوٹ کی دنیا ہے یہاں سچ نہ کہا کر

اپنے ہی شب و روز میں مصروف رہا کر
ہم لوگ برے ہیں تو ہم سے نہ ملا کر

مٹی کا پیالہ بھی نہیں اپنے گھروں میں
خیرات میں چاندی کا تقاضہ نہ کیا کر

تیرا پیار میری تقدیر میں لکھا ہی نہیں ہے
اب چھوڑ دے ہاتھوں کی لکیریں نہ پڑھا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقہ یاراں میں بھی محتاط رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
 
Top