نالے ہیں نہ فریاد نہ آنکھوں میں تری ہے۔۔۔۔۔۔۔زکی کیفی

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
نالے ہیں نا فریاد نہ آنکھوں میں تری ہے
ہر جرمِ تمنّا سے مرا عشق بری ہے

اس کے بھی مقدر میں وہی در بدری ہے
برباد مری طرح نسیمِ سحری ہے

تو ساتھ کہاں دے گا مرا صبح کے تارے
کیا تجھ سے کہوں حال کہ تو خود سفری ہے

اسرارِ غمِ عشق کبھی فاش نہ ہوں گے
ہے جن کو خبر ان کا جہاں بے خبری ہے

تو ہے،ترے جلوے ہیں،ترے حسن کی دنیا
میں ہوں،مری حیرت ہے،پریشاں نظری ہے

دل ٹوٹ گیا پاؤں اٹھائے نہیں اٹھتے
اب کام مرا دور سے منزل نگری ہے

فریاد نہ سن مری ،مگر یہ تو بتادے
کیا میرے دعاؤں کا اثر بے اثری ہے

اب حسن سکھاتا ہے آدابِ تمنا
اب عشق فقط شیوہء شوریدہ سری ہے

اس دور کے الفاظ ہیں مفہوم سے خالی
اس دور کی ہر بات بس اک شیشہ گری ہے

ہوتا ہے وہیں عشق سبک سیر جہاں سے
پروازِ خرد شکوہء بے بال و پری ہے

فرزانہ ہوں، دیوانہ بنا پھرتا ہوں کیفی
واقف ہوں یہاں عرضِ ہنر بے ہنری ہے
 
Top