نارسائی سے پارسائی تک

نظام الدین

محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ’’پارسائی‘‘ کی واضع تعریف کرنا اور پھر اس تعریف کی روشنی میں کسی بھی عورت کے کردار کی خوبیوں کو جانچ کر اسے پارسا قرار دینا بہت مشکل کام ہے، تو مجھے اس بات کی صداقت پر فوراً یقین آگیا تھا۔

دراصل آیت اور روایت کی کشاکش میں پھنسے ہمارے اس معاشرے میں بعض اوقات عورت کو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ ’’پارسا‘‘ ہے، بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان قربانیوں کے بعد بھی اس کا کردار اردگرد رہنے والے لوگوں کے لئے مشکوک ہوجاتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ اگر آپ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ پارسا عورت کیسی ہوتی ہے تو جواب ہوگا۔

’’وہ عورت جو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے اپنے شوہر سے وفادار رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہے وہ پارسا ہے۔‘‘

یہی کہیں گے نا آپ ۔۔۔۔۔۔ ہے نہ! مگر میں ثابت کرسکتی ہوں کہ بعض اوقات یہ تعریف ’’جامع‘‘ ثابت نہیں ہوتی۔ ہوسکتا ہے آپ میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر میں ثابت کرسکتی ہوں کہ ایسا ہوتا ہے۔

دراصل جو چیز ہمارے معاشرے میں عورت کے لئے ’’ناجائز‘‘ سمجھی جاتی ہے وہی چیز مرد کے لئے ’’جائز‘‘ ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں ہر چیز کے واضح احکامات موجود ہیں مگر پھر بھی نہ جانے کیوں حق تلفی ہوجاتی ہے اور یہی حق تلفی ہم میں سے بہت سے لوگوں کی زندگی میں ایک خلا پیدا کردیتی ہے۔ اسی خلا کو پر کرنے کے لئے ہم بعض اوقات کچھ غلطیاں کرجاتے ہیں جنہیں خدا تو معاف کردیتا ہے مگر یہ معاشرہ معاف نہیں کرتا۔

(تنزیلہ ریاض کے ناول ’’نارسائی سے پارسائی تک‘‘ سے اقتباس)
 
Top