فارسی شاعری نابینا و ستمگر - رہی معیّری (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
(نابینا و ستم‌گر)
فقیرِ کوری با گیتی‌آفرین می‌گفت
که ای ز وصفِ تو الکَن زبانِ تحسینم
به نعمتی که مرا داده‌ای هزاران شکر
که من نه درخورِ لطف و عطایِ چندینم
خسی گرفت گریبانِ کور و با وی گفت
که تا جواب نگویی ز پای ننشینم
من ار سپاسِ جهان‌آفرین کنم نه شِگِفت
که تیز‌بین و قوی‌پنجه‌تر ز شاهینم
ولی تو کوری و ناتندرست و حاجت‌مند
نه چون منی که خداوندِ جاه و تمکینم
چه نعمتی‌ست ترا تا به شکرِ آن کوشی؟
به حیرت اندر از کارِ چون تو مسکینم
بگفت کور کزین بِه چه نعمتی خواهی؟
که رویِ چون تو فرومایه‌ای نمی‌بینم
(رهی مُعیِّری)

ترجمہ:
ایک نابینا فقیر خدائے جہان آفریں سے کہہ رہا تھا: "اے وہ کہ جس کی توصیف سے میری زبانِ تحسین عاجز ہے، تو نے جو مجھے نعمت عطا کی ہے اُس کے لیے ہزار شکر! کہ میں اِس قدر لطف و عطا کا لائق نہیں ہوں۔" ایک پست شخص نے نابینا کا گریبان پکڑا اور اُس سے کہا کہ: "جب تک جواب نہ دو گے میں گریبان نہیں چھوڑوں گا۔ اگر میں خدائے جہان آفریں کو سپاس کہتا ہوں تو عجب نہیں، کہ میں شاہین سے زیادہ تیز بیں اور قوی پنجہ ہوں، لیکن تم تو نابینا و ناتندرست و حاجت مند ہو، تم میری طرح نہیں ہو کہ میں تو جاہ و تمکیں کا مالک ہوں۔ تمہارے پاس ایسی کیا نعمت ہے کہ جس کے شکر کی تم کوشش کرتے ہو؟ میں تم جیسے مسکین کے عمل سے حیرت میں ہوں۔" نابینا نے کہا کہ: "اِس سے بہتر کون سی نعمت چاہتے ہو کہ میں تم جیسے کسی فُرومایہ شخص کا چہرہ نہیں دیکھتا۔"
 
آخری تدوین:
Top