نااہلوں کا راج مسلط...تحریر: ارشد فاروق… فن لینڈ

بھگوان کا بھگت میرا ایک ہندو دوست راکیش کمار بھارت سے واپسی پر ملنے آیا ، اپنی حیثیت کے مطابق اس کا سواگت کیا، سیوا کی اور بات چیت کے دوران مجھے ان کے رسوم و رواج سے مزید جانکاری حاصل ہوئی۔ اس نے بتایا کہ اس مرتبہ وہ اپنے ساتھ بھگوان لڈو گوپال کی پیتل کی مورتی بھی لایا ہے۔ لڈو گوپال کے بارے میں میری معلومات صفر تھیں اس طرح راکیش کی باتیں میرے علم میں ایک نئے باب کا اضافہ تھیں۔ لڈو گوپال ایک بچے بھگوان کی مورتی ہے جس کی دیکھ بھال اس کے ماننے والے ایسے ہی کرتے ہیں جیسے ماں اپنے شیر خوار بچے کی کرتی ہے، یعنی اسے وقت پر سلانا، نہلانا، سرمہ لگانا، اس کے بال بنانا، وقت پر کھانا کھلانا، کپڑے تبدیل کرنا وغیرہ۔ اس کے علاوہ اگر والدین نے کہیں جانا ہو تو ساتھ لیکر جانا اور اس بچے کو گھر اکیلے چھوڑ کر نہ جانا، اگر اپنے گھر کوئی مہمان آئے تو بچے لڈو گوپال کی مورتی کے لئے کچھ لے کر آئے، جاتے ہوئے کچھ دے کر جائے۔ راکیش کمار نے میرے استفسار پر بتایا کہ جب ہم اپنے دھرم کے مطابق اپنے بھگوانوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں تو عبادت کی جگہ کو اچھی طرح صاف ستھرا کیا جاتا اور اس جگہ کو پاک کرنے کے لئے گئو موت یعنی ماں گائے کے پیشاب اور گوبر کیساتھ لیپ کر کے پوتر یعنی پاک کیا جاتا ہے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب راکیش نے بتایا کہ بھارت سے واپسی کے سفر کے دوران ان کا سامان وزن کی مقررہ حد سے تجاوز کر گیا تھا لیکن ہاتھ میں پکڑی ٹوکری میں لڈو گوپال کی مورتی ہونے کی وجہ سے ترکی کے استنبول ائر پورٹ پر انہیں بلا روک ٹوک گزرنے دیا گیا،سامان کا وزن نہیں کیا گیا اوراسے سکین کئے بغیر کلیئر بھی کر دیا گیا۔ راکیش کے عقیدے کے مطابق یہ سب کچھ لڈو گوپال کی کرامات کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔
گھر واپس آیا تو میرے کمپیوٹر کے سپیکروں سے مغرب کی اذان گونج رہی تھی۔ بیگم نے کہا کہ آپ جلدی سے کپڑے تبدیل کرلیں کہیں نماز کا وقت نہ نکل جائے۔ میں نے سوچا کہ آج آفس سے نکلتے ہوئے میری پینٹ کسی فِن کے کتے کے ساتھ چھو گئی تھی اورناپاک ہو گئی ہے ، اس لئے مجھے لباس تبدیل کر ہی عبادت کرنی چاہئے۔ میں تب سے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوں کہ ایک زبان اور ایک دھرتی کے باسی ہونے کے باوجود مسلمانوں اور ہندوؤں کے رسم و رواج میں اتنا بڑا تضاد ہے کہ ہمارا ایک ساتھ رہنا عملی طور پر قطعی ناممکن تھا۔ مسلمان کعبے میں دھرے بت توڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ہندو اب بھی لڈو گوپال کے پوتڑے تبدیل کرتے ہیں۔ ہم گائے کو کاٹ کر کھا جاتے ہیں اور وہ اس کے پیشاب کو پاک پانی سمجھ کر پی جاتے ہیں، اس سے منہ دھوتے ہیں، ہم اپنے مردوں کو دفناتے اور وہ جلا کر بھسم کر دیتے ہیں، اسلام نے بیوہ کو دوسری شادی کا قانونی حق دیا ہے جبکہ ہندو سماج اور بھارت کے کئی علاقوں میں آج بھی مردہ شوہر کیساتھ اسکی زندہ بیوی کو جلا دینے ، یعنی ستی کر دینے کی رسم موجود ہے۔ اتنا بڑا تضاد! اور ایسی بے شمار دیگر رسوم و رواج جن پر عمل درآمد کے لئے ان دو عقیدوں کے لوگ اپنی روز مرہ زندگی میں ایک ساتھ اوراکھٹے رہ ہی نہیں سکتے۔ بھارتی گجرات اور مسلم اکثریت والے دیگر علاقوں میں آج بھی ہندو مسلم کا ایک ساتھ رہنا ، ایک سات زندگی بسر کرنانا ممکن ہے۔
ان سب حقیقتوں کے ادراک کے باوجود ہمارے ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مراعات یافتہ طبقے ، بشمول چوہدری اعتزاز احسن ،قائد اعظم محمد علی جناح کی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر کی جانے والی کاوشوں، ہندو اور برطانوی راج کیخلاف قائد کی چو مکھی لڑائی ، اور دن رات کی محنت کو یہ کہہ کر پوری قوم کو مایوس کر دیتے ہیں کہ اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو وہ بھی آئین کی شق 62اور 63 پر پورے نہ اترتے؟
بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن کے سامنے مجھے اپنی کم مائیگی کا اعتراف ہے لیکن ایک بات میں ڈنکے کی چوٹ پر، ببانگ دہل کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں اب بھی کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے دوسو، تین سو صادق اور امین افراد تلاش کرنا تو بہت معمولی بات ہے۔
لیکن گذشتہ پانچ برس جس نا اہل ٹولے کا راج مسلط رہا ہے اس میں شہبازوں کی عائشاؤں اورحمزوں، قابض پرویزی گروپ کے مونسوں کی شجاعتوں ، گیلانیوں کی گل فشانیوں اور شیریں کہنیوں کے اشاروں، سیدانی کے معاف کرائے گئے بنک قرضوں،اور اہل و عیال کی لندن یاتراؤں، زرداروں کے ذاتی ملازموں اور زانی گماشتوں، بھائی لوگوں کی بندبوریوں، داڑھی ، امامے اور سرمہ لگی آنکھوں والے ڈیزل مارکہ سرقہ گیروں، حج سکینڈل والے کاظمی قزاقوں سے لیکر ایفی ڈرین والی عفریتوں تک، عینک والے جنات رانا ثناوں، شکم پرست شاہکار راجہ ریاضی دانوں،جعلساز علماء اورجعلی پی ایچ ڈی ڈاکٹروں ، اورراجہ بجلی کی برقی کراماتوں، ممتاز قادریوں، اور کنٹینر بند شیخوں سمیت ایسے ایسے نااہلوں کا راج مسلط رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اس پانچ سالہ دور اور اس مکروہ ماحول میں پانچ سال تک سانس لیتے ہوئے ، اس کی رو میں بہہ کر چوہدری اعتزاز احسن نے ایسا کم ظرف بیان دیکر ادبی، تاریخ دان اور سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top