نئی لڑی " گل کے مرجھانے کا ملال ہوا" برائے تنقید و مشورہ

گُل کے مرجھانے کا ملال ہوا
پھر ثمر آنے کا خیال ہواا
گھر کی دیوار سب کی پکّی ہے
شہر کا شہر خستہ حال ہوا
میں نے سچ بولنے کا کیا سوچا
زندہ رہنا مرا محال ہوا
بارشیں تجھ سی بے وفا نکلیں
پھول پتّوں کا مجھ سا حال ہوا
وصل میں وقت کی اُڑانیں تیز
ہجر میں اک گھڑی کا سال ہوا
دل پہ چرکے لگائے جاتے ہو
دل ہوا یا کہ مفت مال ہوا
میرے مرنے کے بعد حیرت ہے
کچھ نہ جگ کا خراب حال ہوا
یار گزرا چمن سے بے پردہ
شرم سے ہر گلاب لال ہوا
بام پہ سب تجھی کو ڈھونڈیں ہیں
سب کو تو عید کا ہلال ہوا
اس کی چپ کر گئی مجھے رسوا
جب مرے بارے میں سوال ہوا
اُس سے جو واجبی سا رشتہ تھا
وہ تعلق بھی اب محال ہوا
 

الف عین

لائبریرین
اتنی طویل غزلوں میں سے جو ہلکے اشعار یا بھرتی کے اشعار ہوں، ان کو پہلے ہی نکال دیا کریں تو بہتر ہو۔

گُل کے مرجھانے کا ملال ہوا
پھر ثمر آنے کا خیال ہواا
۔۔ خیال تو اچھا ہے۔ لیکن حقیقت سے بعید۔ جندرختوں پر پھل لگتے ہیں، ان میں پھل سے پہلے جو پھول (بور) آتے ہیں، ان کو چمن کے پھولوں میں شامل نہیں سمجھا جا سکتا۔ محض پھولوں کے مرجھانے سے خیال صرف گلستاں کے پھولوں کی طرف جاتا ہے، پھلوں کے درختوں کی طرف نہیں۔

گھر کی دیوار سب کی پکّی ہے
شہر کا شہر خستہ حال ہوا
÷÷درست، اگرچہ معنویت سمجھ نہیں سکا۔

میں نے سچ بولنے کا کیا سوچا
زندہ رہنا مرا محال ہوا
÷÷درست

بارشیں تجھ سی بے وفا نکلیں
پھول پتّوں کا مجھ سا حال ہوا
÷÷بارشیں یا طوفانی بارش؟ محض طوفانی بارش میں پودے توٹ پھوٹ جاتے ہیں۔ اس شعر کو نکال ہی دو۔

وصل میں وقت کی اُڑانیں تیز
ہجر میں اک گھڑی کا سال ہوا
÷÷پہلا مصرع یوں ہو تو بہتر ہو
وصل میں وقت کی اڑان تھی تیز

دل پہ چرکے لگائے جاتے ہو
دل ہوا یا کہ مفت مال ہوا
÷÷دعونوں جگہ ’دل‘ کی تکرار کی جگہ “پہلا مسرع یوں بہتر ہو گا۔
’اس‘ پہ چرکے۔۔۔۔

میرے مرنے کے بعد حیرت ہے
کچھ نہ جگ کا خراب حال ہوا
÷÷’جگ‘ یہاں اچھا نہیں لگ رہا۔ ’دنیا ‘لانے کی کوشش کرو۔

یار گزرا چمن سے بے پردہ
شرم سے ہر گلاب لال ہوا
÷÷درست

بام پہ سب تجھی کو ڈھونڈیں ہیں
سب کو تو عید کا ہلال ہوا
÷÷دوسرا مصرع واضح نہیں۔ مطلب یہ ہے نا کہ ’سب کے لیے تُو‘

اس کی چپ کر گئی مجھے رسوا
جب مرے بارے میں سوال ہوا
÷÷درست

اُس سے جو واجبی سا رشتہ تھا
وہ تعلق بھی اب محال ہوا
÷÷درست
 
تصحیح کے بعد:

گل کے مرجھانے کا ملال ہوا
کوئی بھنورا خراب حال ہوا
میں نے سچ بولنے کا کیا سوچا
زندہ رہنا مرا محال ہوا
بارشیں بے وفا تھیں نا برسیں
پیاسے پتّوں کا مجھ سا حال ہوا
وصل میں وقت کی اُڑان تھی تیز
ہجر میں اک گھڑی کا سال ہوا
اس پہ چرکے لگائے جاتے ہو
دل ہوا یا کہ مفت مال ہوا
میرے مرنے کے بعد دنیا کا
کیوں نہ کچھ بھی خراب حال ہوا
یار گزرا چمن سے بے پردہ
شرم سے ہر گلاب لال ہوا
بام پہ سب تجھی کو ڈھونڈیں ہیں
گویا تو عید کا ہلال ہوا
جس نے دیوار اپنی پکی کی
اس نے سب شہر خستہ حال کیا
اس کی چپ کر گئی مجھے رسوا
جب مرے بارے میں سوال ہوا
اُس سے جو واجبی سا رشتہ تھا
وہ تعلق بھی اب محال ہوا
میرے پاؤں میں کوئی چکّر ہے
چلتے چلتے خراب حال ہوا
 

الف عین

لائبریرین
تقریباً درست ہے۔ اس کا میں نے نہیں لکھا تھا کہ جہاں ’پر‘ آ سکے، وہاں ’پہ‘ استعمال نہیں کیا جائے۔
بام پر سب تجھی کو ڈھونڈے ہیں
درست ہو گا
خراب حال اور خستہ ھال بہت ہو گیا۔ ایک آدھ شعر کو عاق کر دو
 
Top