میں کہ ریسکیورہوں ۔۔۔!

ہر دن۔۔۔ ارد گرد پھیلے ہزاروں دکھوں کو دیکھتا ہوں
غموں کے اژدھام سمیٹتا ہوں
قدرت دھڑکتے دلوں کابٹن ایک دم آف کردیتی ہے
میں حسرت زدہ ،یاس آلود آنکھوں کے پردے بند کردیتا ہوں
پٹی کرتے سمے ،بہتے خون کے چھینٹے مجھے رنگین کرتے ہیں
مگر، ان کی بو اب محسوس نہیں ہوتی۔۔۔
اورآگ بجھانے پہ جھلسے جسموں کی بوبھی طمانیت بخشتی ہے
چٹختی ہڈیاں جب گوشت پھاڑ نکلتی ہیں
میں بے تاثر نظروں سے چیخیں سنتا ہوں
لیکن !میرامدد کو اٹھا ہاتھ رک نہیں پاتا
البتہ نہر میںبچوں سمیت ڈوبی کوئی ماں مل جائے
تو آواز لگاتاہوں۔۔۔“سارا خاندان مکمل ہوگیا”
بم دھماکوں میں میں انسانوں کے بکھرے چیتھڑے
دل کو روگ لگاتے ہیں
اور سکولوں میں بکھری ننھی لاشیں دیکھ کر
مجھے میرے بچے یاد آتے ہیں
یک دم دل لرز اٹھتا ہے
گٹر اور کوڑھے کے ڈھیر پہ نومولودوں کی لاشیں
فکر میں انتشار برپا کردیتی ہیں
گھروں سے بھاگی لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی کی خبر پر
انھیں ادھ مردہ حالت میں ہوٹلوں کے کمروں سے نکالتا ہوں
جن کے بستوں میں عروسی جوڑے مردہ خوابوں سمیت پڑ ےرہ جاتے ہیں
حادثات میں بریڈ ارنرز کی معذوری ہینڈل پہ میری گرفت مضبوط کرتی ہے
کبھی کبھی اکلوتے جوان بیٹے کی لاش پہ ماتم کرتی ماں کو دیکھ کےدل بھر آتا ہے
“اب نہیں رہا” کہتے سمے شرمندہ سا ہوجاتا ہوں
اور یہ شرمندگی بھی معمول کاحصہ بن چکی ہے
برسوں بعد وطن لوٹ کر ،لٹنے والے شخص کی قسمت پہ افسوس ہوتا ہے
دکھ سنبھالتے سنبھالتے تھکنے لگتا ہوں
توجی چاہتا ہے ۔۔۔چلا ّکر رودوں
اور چیختے ہوئے سر پہ خاک ڈال لوں
خود کو ۔۔۔اس دنیا سے کہیں باہر نکال لوں
لیکن !پھر سے ۔۔۔یہی سب کچھ دیکھتا ہوں
اس سے بڑھ کر دیکھتا ہوں اور بُت ہوتاجا تا ہوں
انسانیت کے درد کو۔۔۔
کھوتا چلا جاتا ہوں

محمد خرم یاسین ©قرار کرب
Muhammad Khurram Yasin
 
Top