میں کہیں اور جا نہیں سکتا ندیم بھابھہ ، جمع و ترتیب: عبد الرزاق قادری

محمد ندیم بھابھہ- ہجر بھرے ویرانے میں
تازہ کار شاعروں میں محمد ندیم بھابھہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس نے اپنی پہچان کرانے کے لیے کوئی منفی حربہ استعمال نہیں کیا۔ وہ اپنی غزلوں اور نظموں کے ساتھ ’’ماہنامہ بیاض‘‘ کے صفحات پر نظر آیا۔ اس طرح خالد احمد جیسے بڑے شاعر نے اس کی محبت بھری آواز کے معتبر ہونے کی گواہی دی۔
میرا جی چاہتا ہے کہ میں محمد ندیم بھابھہ کی مستقل گر محبت پر تھوڑی سی بات کروں یوں تو محبت پر گفتگو ایک نظم کی طرح کہیں سے بھی شروع کی جا سکتی ہے لیکن اس وقت محمد ندیم بھابھہ کا ایک خوبصورت شعر مجھے اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں
یہ شعر سنتے ہی مجھے کپل وستو کا شہزاد ’’سدھارتھ‘‘ تخت ہزارے کا ’’رانجھا‘‘ اور اب محمد ندیم بھابھہ یاد آتے ہیں۔ سدھارتھ گیان حاصل کرنے رات کی تاریکی میں گھر سے نکل پڑا۔ رانجھا ہیر کے لیے تخت ہزارہ چھوڑ آیا اور بھینسیں چرانے لگا۔ میرے نزدیک گیان محبت ہے اور محبت گیان ہے۔ ندیم نے شاعری کی محبت میں حکمرانی چھوڑی ہے۔ اس کا تعلق میلسی کے ایک بڑے جاگیردار گھرانے بھابھہ سے ہے۔ جب اس نے پہلی بار اپنے شاعر ہونے کا اعلان کیا تو گھر کے لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی۔ اسے شعر کہنے سے منع کیا لیکن بہت جلد انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ نوجوان اس گھرانے کی پہچان کرانے جا رہا ہے۔
’’فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص‘‘
محمد ندیم بھابھہ کا شعر میں ایک بار پھر سناتا ہوں۔
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں
اس بار یہ شعر مجھے محبت کی آڑ میں ایک پورے سسٹم کے خلاف صدائے احتجاج لگ رہا ہے۔ ایک ایسا فرار محسوس ہو رہا ہے جو ن .م راشدؔ کے ’’زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں‘‘ سے بالکل مختلف ہے۔ راشدؔ کے ہاں فرار محض جنسی جذبے کی آسودگی کے لیے تھا لیکن محمد ندیم بھابھہ ایک ایسی سپردگی کی حالت میں ہے جو خواجہ فریدؒ کی سپردگی اور والہانہ پن ہے۔ خواجہ صاحبؒ فرماتے ہیں
کوجھی کملی تیڈے نانویں نہ کر یار کریر
ترجمہ: ’’میں بدصورت اور پگلی تمہارے نام ہو چکی ہوں اے یار مجھ سے نفرت نہ کر‘‘
محمد ندیم بھابھہ اسی کیفیت میں ہے۔ وہ رسائی حاصل کرنے کے وسائل بھی رکھتا ہے اور ہمت بھی۔ لیکن وہ مسلسل حالتِ ہجر میں رہنا پسند کرتا ہے یہاں مجھے پھر خواجہ فریدؒ یاد آتے ہیں۔ آپ چولستان کی ایک عورت سے محبت کرتے تھے اور اس کے ہجر میں گھلتے رہتے تھے۔ ایک دن آپ کے مرید نواب آف ریاست بہاولپور نے عرض کی ’’حضور حکم ہو تو اس عورت کو اٹھوا لیں۔ آپ کا آہیں بھرنا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا‘‘ خواجہ صاحبؒ نے فرمایا ’’تمہیں ہجر کی لذت کا اندازہ نہیں تبھی ایسی بات کر رہے ہو‘‘ ۔ محمد ندیم بھابھہ ہجر کا لذت آشنا نوجواں شاعر ہے۔ جس کا بھری دنیا میں جی نہیں لگتا۔ جو ایک گہری اداسی میں شعر کہتا چلا جا رہا ہے۔ جیسے خواجہ فریدؒ کی شاعری کا بنیادی سُر ہجر ہے، ندیم کی شاعری بھی اسی سُر میں ہے۔ یہ معاملہ صرف یہیں تک ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں غزل اور نظم کی شعریت نے اجازت دی ہے ندیم نے سرائیکی شاعری کے موضوعات اور علامات کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن اس نے جہاں بھی یہ کام کیا ہے فیشن کے طور پر نہیں کیا۔ وہ اپنی غزلوں میں کسی Complexکے بغیر ستلج ’قبیلے‘ گاؤں، چرخہ، حضرت سائیں فریدؒ اور ویران تھل کا ذکر کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنے غزل کا خمیر سرائیکی کافی سے اٹھاتا ہے اگر اس نے اپنے اس امکان کو اچھی طرح بسر کیا تو مستقبل میں ہمیں ایسی بڑی شاعری ملنے کی قوی امید ہے جس کا ایک ماڈل خالد احمد کی نظم ’’مادھو لال حسین‘‘ یا وہ اشارے ہیں جو محمد ندیم بھابھہ کی غزلوں اور نظموں سے مل رہے ہیں۔
محمد ندیم بھابھہ کی شاعری کی تفہیم کے لیے اس کی زندگی کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ یہ شعراء کی اس قبیل سے تعلق رکھتا ہے جن کی شاعری شخصیت کی تہوں سے پیدا ہوتی ہے۔ میرے نزدیک بڑے شعراء کی شاعری اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ محمد ندیم بھابھہ اپنی بے ساختہ شخصیت اور بے ساختہ شاعری کے ساتھ سنبھلے ہوئے قدم رکھتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس عمر میں عموماً نوجوانوں میں بے جبری کا عنصر ہونے لگا ہے جو ادب کی میراتھن ریس میں شریک ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ ابتدا میں کیسے چلا جاتا ہے اور کس طرح آخر دم تک دوڑتے رہنا ہے۔ وہ بلند ہمتی کے ساتھ ساتھ ایک قابلِ رشک تیقن لیے ہوئے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ محبت سے لے کر کائنات تک کسی بھی شے کو شک بھری نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ بلکہ وہ اشیاء کی ماہیت کو بھی شاید جان چکا ہے۔ شاید اسی عرفان نے اس کی ذات اور شاعری میں قطعیت پیدا کر دی ہے۔ محبت میں دل اندیشہ ہائے دور دراز میں گھرا رہتا ہے لیکن محمد ندیم بھابھہ جیساہجر کا ہمزاد شاعر جانتا ہے کہ مآل کار کیا ہونا ہے یہاں میں اس کی ایک غزل سنانا چاہتا ہوں جس میں محبت کے حوالے سے اس نے کچھ نتائج اخذ کر لیے ہیں۔
مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا
عشق میں اچھے برے سب ہی کا احسان لیا
تم فقط خواہش دل ہی نہیں اب ضد بھی ہو
دل میں رہتے ہو تو پھر دل میں تمہیں ٹھان لیا
وہ مرے گزرے ہوئے کل میں کہیں رہتا ہے
اس لیے دور سے اس شخص کو پہچان لیا
ہاتھ اٹھایا تھا ستاروں کو پکڑنے کے لیے
چرخ نے چاند کو خنجر کی طرح تان لیا
آزمایا ہی نہیں دوسرے جذبوں کو ندیمؔ
اس محبت کو ہی بس سب سے بڑا مان لیا
محبت کے جذبے کو سب سے بڑاماننے والا ہی اس قطعی انداز میں بات کر سکتا ہے۔ جو شخص محبت کو سب کچھ سمجھتا ہے وہی ذات و کائنات کو ایسے زاویے سے دیکھتا ہے کہ وقت اور موت بھی اس کے لیے محبت کے ہم معنی ہو جاتے ہیں اور وہ ان بڑے موضوعات کو محبت سے ہم آہنگ کرنے لگتا ہے۔
اس سے آگے تو محبت سے گلہ ہے مجھ کو
تو تو بس ہاتھ مرا چھوڑ دیا کرتا تھا
۔۔۔
ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں
ملے دوبارا اگر ایسی زندگی تو نہیں
اچانک آنا تمہارا اور اس قدر چاہت
کہیں یہ دوست مری آخری خوشی تو نہیں
۔۔۔
چھپنے والے تو کبھی سوچ کہ اک دن بالفرض
یہ مری خواہش دیدار اگر مر جائے
باندھ رکھی ہے قبیلے نے توقع جس سے
اور اچانک ہی وہ سردار اگر مر جائے
محمد ندیم بھابھہ نے محبت کے موضوع کو اپنی غزلوں اور نظموں میں خوب نبھایا ہے۔ عموماً نئے شعرا اس میدان میں قدم رکھتے ہی کلیشے کی زد میں آ جاتے ہیں لیکن وہ قطعی انداز کے باعث ایک منفرد شاعر کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ محمد ندیم بھابھہ غزل او رنظم دونوں کہنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ غزل میں وہ خود کلامی کے لہجے میں کلام کرتا ہے۔ نثری ترتیب میں ڈھلے ہوئے مصرعے جب جذبے کی حلاوت لے کر آتے ہیں تو قاری کو خوب مزہ دیتے ہیں۔ اس کی نظموں میں بھی یہی کیفیت ہے عموماً غزل گو شعرا انتہائی ذاتی باتوں کے لیے نظم کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن محمد ندیم بھابھہ کی نظمیں غزلیں ذات کے ایک ہی سُر میں ڈھلی ہوئی ہیں۔ بس اتنا ہے کہ نظم میں وہ اپنے علاقے کے لینڈ اسکیپ، ثقافت اور صوفیانہ روایت سے کھل کھیلتا ہے لیکن غزل میں جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں وہ اس حد تک لبرٹی لیتا ہے جس سے شعریت مجروح نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نظموں میں اس کی بے تکلفی شعریت کو متاثر کرتی ہے بلکہ وہ نظم کو خوبصورت انداز میں بنتا ہے کہ نظم بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔
عباس تابش​
 
اگر اردو شاعری کا عہد بہ عہد جائزہ لیا جائے تو ایک بات طے ہے کہ وہی شاعر آج بھی ادبی منظر نامے پر اپنے بھرپور چمک اور دھمک کے ساتھ موجود ہیں جو ناصرف اپنے عہد کے تمام مروجہ رجحانات اور موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہوئے الگ راہیں تراشنے میں مصروف رہے بلکہ کسی بھی خیال کا جو آخری اعلیٰ امکان ہو سکتا ہے وہاں تک رسائی بھی حاصل کی۔ شعر کہنا ایک آسان عمل بھی ہو سکتا ہے اور دشوار مرحلہ بھی۔ یہ شاعر کی ذہنی استعداد اور صلاحیت پر منحصر ہے ہمارے شعراء کی اکثریت اس لیے بھی شعر کہنے کے عمل کو آسان تصور کرتی ہے کہ ان کے نزدیک محض مصرعہ وزن میں کہنا شعر کہنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا قافیے کے حوالے سے پہلی بات چاہے وہ گھسی پٹی اور فرسودہ ہی کیوں نہ ہو جوان کے دماغ میں آتی ہے اسے ہی وزن میں کر کے شعر کہنے کا اپنے تئیں فریضہ انجام دیتے ہیں۔ لیکن محمد ندیم بھابھہ ایک ایسا شاعر ہے جس نے اپنی شاعری کے لیے جو راستہ چنا وہ دشوار تو ضرور ہے مگر اس راستے پر چل کر وہ ان شاعروں میں شامل ہو چکا ہے جنہوں نے اپنی خوبصورت تخلیقات سے اردو شاعری کی آبرو میں اضافہ کیا۔ محمد ندیم بھابھہ کے پہلے شعری مجموعے میں اس کی اٹھان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مجموعہ اس کی آخری منزل نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک ایسے سفر کا آغاز ہے جس کے ذریعے وہ کسی نامعلوم بلندی کی طرف جانا چاہتا ہے۔ خداوند کریم نے اسے شاعری کی فطری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ زبان اور بیان پر اسے عبور حاصل ہے۔ کلاسیقیت کے چراغوں سے اس کی راہ گزر منور ہے اور سب سے بڑی بات اس میں وہ ہمت اور حوصلہ ہے جو کسی ناممکن کو ممکن کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے۔
محمد ندیم بھابھہ کی شاعری کا موضوعاتی سطح پر مختصر جائزہ لینے سے پہلے میں اس کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس کی شاعری کے خدوخال ترتیب دیے ہیں۔ محمد ندیم بھابھہ بنیادی طور پر سیاسی حوالوں سے مضبوط ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اس کے آباؤ اجداد ہمیشہ ہمارے ملک کے ایوانِ اقتدار میں موجود رہے ہیں۔ اس کی پرورش جس ماحول میں ہوئی وہ کسی بھی عام انسان کے لیے ایک خواب سے کم نہیں۔ آسائشوں اور آسودگی سے بھرپور زندگی گزارنے والا محمد ندیم بھابھہ اپنی ذات میں کتنی بے چینیاں رکھتا ہے وہ اس کی شاعری سے جھلک رہی ہیں۔ شاعری کی سلطنت میں سر جھکا کر داخل ہونے والے اس شاعر نے وراثت میں ملنے والے تاج و تخت کو ایک ٹھوکر میں خود سے جدا کر دیا ۔

بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں
۔۔۔
باند ھ رکھی ہے قبیلے نے توقع جس سے
اور اچانک ہی وہ سردار اگر مر جائے
۔۔۔
اپنے حصے کی حکومت بھی اسی کو سونپ دی
میں ندیمؔ اس کو بھرا دربار دے کر آ گیا
۔۔۔
یہ آدمی پہ حکومت تمہیں مبارک ہو

اقتدار و اختیار سے گریز کی خواہش نے محمد ندیم بھابھہ کو محبت کی سلطنت میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اس کی شاعری کا سب سے بڑا موضوع محبت ہے اور یہ محبت ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنا سب کچھ کسی کے قدموں میں ڈھیر کرنے آیا ہے اور اس کے عوض صرف محبت چاہتا ہے۔ کسی اچھے اور ذہین شاعر کے لیے محبت کی شاعری اس کے لیے بھی دشوار ہے کہ وہ روایتی سطح پر محبت کے موضوع کو اپنی شاعری کا حصہ بنانے پر تیار نہیں ہوتا۔ وہ یہاں بھی کوئی نئی بات اور نیا رخ تلاش کرنا چاہتا ہے جو اسے دوسروں سے الگ تھلگ کر سکے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ محمد ندیم بھابھہ کی شعوری، غیر شعوری کوشش، شاعرانہ کمال اور اس کی ذات میں روشن محبت کے الاؤ نے اسے محبت کی شاعری میں ایک جد اطرزِ اظہار عطا کیا ہے۔
مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا
عشق میں اچھے برے سب ہی کا احسان لیا
۔۔۔
کچھ اس لیے بھی تم سے محبت ہے مجھ کو دوست
میرا کوئی نہیں ہے تمہارا کوئی تو ہو

تم وجہِ محبت ہو
تم حسن کی دولت ہو
ہر رنگ تمہارا ہے
تم پھول کی صورت ہو
میں الجھا ہوا سا ہوں
میں ہجر کا مارا ہوں
تم نظم مکمل ہو
تم شعر کی لذت ہو
میں وہم کی صورت ہوں
تم ایک حقیقت ہو
میں رات دسمبر کی
تم وصل کی ساعت ہو
میں کچھ بھی نہیں شاید
تم حد سے زیادہ ہو
اللہ کی قدرت ہو
میں بول نہیں سکتا
تم لفظ کی صورت ہو
تم میری ضرورت ہو

موضوعاتی سطح پر نئے امکانات تلاش کرنے والا شاعر خدانخواستہ اگر فنی لحاظ سے کمزور ہوتو شاعری میں لطف پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ جو شعر سے محبت کرنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور میرا تو یہاں تک ایمان ہے کہ بڑا شاعر پرانی بات کو بھی اپنے اندازِ بیاں اور لفظوں کے در و بست سے وہ مقامِ بلندی عطا کر سکتا ہے جو اس سے پہلے اسے نصیب ہی نہ ہوا ہو۔ محمد ندیم بھابھہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے تمام فنی لوازمات کے ساتھ شعر کہنے کا سلیقہ ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ایک ذہین شاعر کسی بھی وقت کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ محمد ندیم بھابھہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ میدانِ شعر میں قدم رکھا ہے۔ اس کا یہ پہلا مجموعہ اس کی شعری عمارت کی بنیاد ہے۔ بنیاد کی مضبوطی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ عمارت یقیناًشاند ار ہوگی۔ محمد ندیم بھابھہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لائے گا اور ہمارے شعری اثاثے میں خوبصورت شاعری کا اضافہ کرے گا۔ میری تمام دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔
قمر رضا شہزاد​
 
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں
ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں
اور اب احساس ہوتا ہے تمہارے شہر میں آ کر
میں تنہا رات اور راتوں کی رانی چھوڑ آیا ہوں
اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سناٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں
ندیمؔ اس شہر کی گلیوں محلوں اور سڑکوں پر
میں اپنی زندگی شاید بنانی چھوڑ آیا ہوں
ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں
ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں​
ملے دوبارہ اگر ایسی زندگی تو نہیں​
اچانک آنا تمہارا اور اس قدر چاہت​
کہیں یہ دوست مری آخری خوشی تو نہیں​
تو کیوں نہ تجھ سے تری گفتگو ہی کی جائے​
ترے علاوہ یہاں میرا کوئی بھی تو نہیں​
ہم اہل عشق بڑے وضع دار ہوتے ہیں​
ہماری آنکھ میں دیکھو کہیں نمی تو نہیں​
فصیلیں چاٹنے والے مجھے بتائیں ندیمؔ​
کہیں زمین پہ یہ آخری صدی تو نہیں​
مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا
مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا
عشق میں اچھے برے سب ہی کا احسان لیا
تم فقط خواہش دل ہی نہیں اب ضد بھی ہو
دل میں رہتے ہو تو پھر دل میں تمہیں ٹھان لیا
وہ مرے گزرے ہوئے کل میں کہیں رہتا ہے
اس لیے دُور سے اس شخص کو پہچان لیا
ہاتھ اٹھایا تھا ستاروں کو پکڑنے کے لیے
چرخ نے چاند کو خنجر کی طرح تان لیا
آزمایا ہی نہیں دوسرے جذبوں کو ندیمؔ
اس محبت کو ہی بس سب سے بڑا مان لیا
چلا گیا ہے وہ لیکن نشان اب بھی ہیں
چلا گیا ہے وہ لیکن نشان اب بھی ہیں​
کہ اس کے سوگ میں پسماندگان اب بھی ہیں​
یہ اور بات کہ رہنا مرا گوارا نہیں​
تمہارے شہر میں خالی مکان اب بھی ہیں​
یہ عشق ہے کہ تجھے چھوڑ بھی نہیں سکتے​
وگرنہ تجھ سے تو ہم بدگمان اب بھی ہیں​
ہمیں تو پہلے بھی تم سے گلہ نہیں تھا کوئی​
اور اب کے ہے بھی تو ہم بے زبان اب بھی ہیں​
سہولت ہو اذیت ہو، تمہارے ساتھ رہنا ہے
سہولت ہو اذیت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے​
کہ اب کوئی بھی صورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے​
ہمارے رابطے ہی اس قدر ہیں تم ہو اور بس تم​
تمہیں سب سے محبت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے​
اور اب گھر بار جب ہم چھوڑ کر آہی چکے ہیں تو​
تمہیں جتنی بھی نفرت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے​
ہمارے پاؤں میں کیلیں اور آنکھوں سے لہو ٹپکے​
ہماری جو بھی حالت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے​
تمہیں ہر صبح اور ہر شام ہے بس دیکھتے رہنا​
تم اتنی خوبصورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے​
بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا
بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا​
وہ رشتہ ہم میں شاید جھوٹ کا تھا​
کسی کا انتظار اب کے نہیں ہے​
گئے وہ دن کہ کھڑکی دیکھتا تھا​
محبت نے اکیلا کر دیا ہے​
میں اپنی ذات میں اک قافلہ تھا​
مری آنکھوں میں بارش کی گھٹن تھی​
تمہارے پاؤں بادل چومتا تھا​
تمہاری ہی گلی کا واقعہ ہے​
میں پہلی جب تنہا ہوا تھا​
کھجوروں کے درختوں سے بھی اونچا​
مرے دل میں تمہارا مرتبہ تھا​
پھر اس کے بعد رستے مر گئے تھے​
میں بس اک سانس لینے کو رکا تھا​
قیس و لیلیٰ کا طرفدار اگر مر جائے
قیس و لیلیٰ کا طرفدار اگر مر جائے​
میں بھی مر جاؤں یہ کردار اگر مر جائے​
پھر خدایا! تجھے سورج کو بجھانا ہوگا​
آخری شخص ہے بیدار اگر مر جائے​
چھپنے والے تو کبھی سوچ کہ اک دن بالفرض​
یہ مری خواہش دیدار اگر مر جائے​
باندھ رکھی ہے قبیلے نے توقع جس سے​
اور اچانک ہی وہ سردار اگر مر جائے​
عین ممکن ہے کہ آ جائے مرا نام کہیں​
شہرِ لیلیٰ کا گنہگار اگر مر جائے​
منتظر جس کی یہ آنکھیں ہیں کئی برسوں سے​
اور وہ چاند بھی اس پار اگر مر جائے​
زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں
زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں​
تمہارے عشق میں جانے کہاں پہنچا ہوا ہوں​
ہجومِ خواب سے گھبرا کے آنکھیں کھل گئی تھیں​
پھر اس کے بعد میں تنہائی میں کھویا ہوا ہوں​
گزارا تھا تمہارے شہر کی گلیوں میں بچپن​
تمہارے شہر کی گلیوں میں ہی تنہا ہوا ہوں​
نہ جانے کس گھڑی نام و نشاں مٹ جائے میرا​
کھنڈر کی آخری دیوار پہ لکھا ہوا ہوں​
تم اپنے واسطے کچھ شعر اچھے یاد کر لو​
میں ہوں اک درد کا نغمہ بہت گایا ہوا ہوں​
تمہارے شہر کے پتھر تو میرے آشنا ہیں​
ندیمؔ ان کو تم اتنا کہہ دو میں آیا ہوا ہوں​
 
جھیل اور جھیل کنارے کا شجر میرے بعد
جھیل اور جھیل کنارے کا شجر میرے بعد​
ہوگا چپ چاپ بہت چاند اُدھر میرے بعد​
کون رہتا ہے یہاں میرے علاوہ گھر میں​
لوٹ آتا ہے جو ہر شام مگر میرے بعد​
شہر تو پہلے بھی لوگوں سے بھرا رہتا تھا​
ہوگا ویران بہت ایک کھنڈر میرے بعد​
اسے کہنا کہ یہاں تیز ہوا چلتی ہے​
تتلیاں لے کے نہ اب آئے اِدھر میرے بعد​
مر گیا ہوں میں قیامت تو نہیں آئی کوئی​
جانے کیا سوچتے ہیں زید بکر میرے بعد​
تم مرے ساتھ مرے لفظ بھی دفنا ہی دو​
یہ نہ ہو بول اٹھے میرا ہنر میرے بعد​
جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت
جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت​
ہیں اس قبیلے سے میرے تعلقات بہت​
مری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو​
مرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت​
وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا ورنہ​
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت​
کسی نے اپنے اندھیروں میں روشنی چاہی​
کسی کا ذکر کیا چاند نے بھی رات بہت​
وہ جس نے عین جوانی میں ہم کو مار دیا​
ندیمؔ اس سے جڑی تھیں توقعات بہت​
تمہارے بعد خود کو دیکھنا ہے
تمہارے بعد خود کو دیکھنا ہے​
کہ مجھ میں اور کتنا حوصلہ ہے​
مکمل تجھ کو بھی کرنا نہیں ہے​
تجھے لکھ کر ادھورا چھوڑنا ہے​
کسی جنگل میں اب رہنا پڑے گا​
مرا گاؤں مکمل ہو چکا ہے​
زمیں کا آخری حصہ ہیں آنکھیں​
جہاں انسان آ کر ڈوبتا ہے​
نہ جانے کس پہ مشکل وقت آیا​
کوئی خط میں ہتھیلی بھیجتا ہے​
مجھے یکسر عطا کر دے خدایا​
مری قسمت میں جو کچھ بھی لکھا ہے​
محبت ہی خدا سے مانگتے ہیں​
محبت ہی ہمارا مسئلہ ہے​
مجھے پانی نے یہ پیغام بھیجا​
کہ ستلج پھر سے بہنے لگ پڑا ہے​
ندیم اک شخص کو پانے کی خاطر​
مجھے حد سے گزرنا پڑ گیا ہے​
عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی
عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی​
اداس لگتا نہیں ہوں اداس ہو کر بھی​
خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید​
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی​
نمو کی روشنی لے کر اُگا ہوں صحرا میں​
میں سبز ہو نہیں سکتا ہوں گھاس ہو کر بھی​
وجود وہم بنا، مٹ گیا مگر پھر بھی​
تمہارے پاس نہیں ہوں قیاس ہو کر بھی​
یہ آدمی پہ حکومت تمہیں مبارک ہو​
فقیر کیسے چھپے خوش لباس ہو کر بھی​
چاند روشن ہے تو بس شب کی اذیت تک ہے
چاند روشن ہے تو بس شب کی اذیت تک ہے​
جانتا ہوں کہ ترا ساتھ ضرورت تک ہے​
ایک کردار کہانی کے لیے میں بھی ہوں​
اور صحرا بھی مری آخرت ہجرت تک ہے​
تو نہیں ہوتا اگر کس نے یہاں رہنا تھا​
دوست یہ گھر بھی فقط تیری سکونت تک ہے​
انتہا کوئی تو ہو تیری طرف سے جاناں​
منتظر تیرا کوئی شخص قیامت تک ہے​
اپنی تنہائی سے پوچھوں گا اگر پوچھ سکا​
کیا یہ سچ ہے کہ ہر اک دوست سہولت تک ہے​
مر گئے لوگ یہاں سارے مگر اب بھی ندیمؔ​
کوئی زندہ ہے تو بس اس کی محبت تک ہے​
یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے
یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے​
کسی پچھلی محبت کو دوبارہ کر لیا جائے​
شجر کی ٹہنیوں کے پاس آنے سے ذرا پہلے​
دعا کی چھاؤں میں کچھ پل گزارا کر لیا جائے​
ہمارا مسئلہ ہے مشورے سے اب بہت آگے​
کسی دن احتیاطاً استخارا کر لیا جائے​
مرا مقصد یہاں رکنا نہیں بس اتنا سوچا ہے​
سفر سے پیشتر اس کا نظارا کر لیا جائے​
حوالے کر کے اپنا جسم اک دن تیز لہروں کے​
پھر اس کے بعد دریا سے کنارا کر لیا جائے​
ندیمؔ اس شہر میں مانوس گلیاں بھی بہت سی ہیں​
اور اب آئے ہیں تو ان کا نظارا کر لیا جائے​
رابطہ مجھ سے مرا جوڑ دیا کرتا تھا
رابطہ مجھ سے مرا جوڑ دیا کرتا تھا​
وہ جو اک شخص مجھے چھوڑ دیا کرتا تھا​
مجھے دریا، کبھی صحرا کے حوالے کر کے​
وہ کہانی کو نیا موڑ دیا کرتا تھا​
اس سے آگے تو محبت سے گلہ ہے مجھ کو​
تو تو بس ہات مرا چھوڑ دیا کرتا تھا​
بات پیڑوں کی نہیں غم ہے پرندوں کا ندیمؔ​
گھونسلے جن کے کوئی توڑ دیا کرتا تھا​
 
گزر رہا ہوں مگر وقت کے ارادے سے
گزر رہا ہوں مگر وقت کے ارادے سے
مرا وجود بندھا ہے ہوا کے دھاگے سے
یہ چاند ٹوٹ کے قدموں میں کیوں نہیں گرتا
یہ کھینچتا ہے مجھے چاندنی کے دھاگے سے
کسے پکاروں یہاں کون چل کے آئے گا
یہاں پہ لوگ نظر آئے بھی تو آدھے سے
میں اس جگہ سے کہیں اور جا نہیں سکتا
بندھا ہوا ہوں مکمل کسی کے وعدے سے​
تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی
تو بھی آ جائے یہاں اور مرا بچپن بھی
ختم ہو جائے کہانی بھی ہر اک الجھن بھی
خیر اس ہجر میں آنکھیں تو چلی جاتی ہیں
ٹوٹ جاتے ہیں کلائی کے نئے کنگن بھی
بھیک مل جاتی ہے اور پانی بھی پی لیتا ہوں
ہاتھ کشکول بھی ہیں اور مرے برتن بھی
کیا ضروری ہے کسی مور کا ہونا بن میں
رقص کرتا ہے ترے دھیان میں تو تن من بھی
کیوں ترے غم میں کسی اور کو شامل کر لوں
کس لیے روئے مرے ساتھ مرا آنگن بھی
ایک ویران ریاست کی طرح ہوں میں ندیمؔ
فتح کر کے مجھے پچھتائے مرے دشمن بھی​
تیر، نیزے، ڈھال اور تلوار دے کر آ گیا
تیر، نیزے، ڈھال اور تلوار دے کر آگیا
اپنا سب کچھ ہی سپہ سالار دے کر آ گیا
ہارنے کے خوف سے یہ فیصلہ کرنا پڑا
جنگ سے پہلے میں سب ہتھیار دے کر آ گیا
عین ممکن ہے وہ میرا نام تک رہنے نہ دے
میں اسے اپنے سبھی آثار دے کر آ گیا
وقت نے دہرا دیا قصہ مرے اسلاف کا
اہل مکہ کو میں پھر گھر بار دے کر آ گیا
اپنے حصے کی حکومت بھی اسی کو سونپ دی
میں ندیمؔ اس کو بھرا دربار دے کر آ گیا​
گلی کے موڑ پہ خالی مکان باقی ہے
گلی کے موڑ پہ خالی مکان باقی ہے
ندیمؔ کوئی تو اپنا نشان باقی ہے
یہ گھر میں پھر سے پرندوں کے غول کیوں اترے
ابھی تو پچھلے سفر کی تکان باقی ہے
ابھی تو پہلے سپاہی نے جان دی تجھ پر
تو غم نہ کر کہ مرا خاندان باقی ہے
تمہارے عشق کے ساتوں سوال مشکل ہیں
غم حیات کا بھی امتحان باقی ہے
زمانے بھر کو تسلی دلانے والے سن
یہ ایک شخص ابھی بدگمان باقی ہے
مرے نصیب کے سارے ستارے ٹوٹ گئے
یہ اور بات ابھی آسمان باقی ہے​
اس کی باتیں، اس کا لہجہ اور میں ہوں
اس کی باتیں، اس کا لہجہ اور میں ہوں
نظم پڑی ہے مصرعہ مصرعہ، اور میں ہوں
ایک دیا رکھا ہے ہوا کے کاندھے پر
جس کا لرزتا، جلتا سایا اور میں ہوں
اس گاؤں کی آبادی بس اتنی ہے
شہر سے بھاگ کے آنے والا اور میں ہوں
چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں
ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں​
اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے
اس کو اپنے پاس بلایا جا سکتا ہے
پنجرے میں بھی شور مچایا جا سکتا ہے
ماں نے کاٹھ کی روٹی بھیجی ہے یہ کہہ کر
بھوک لگے تو اس کو کھایا جا سکتا ہے
دل پر اگنے والے یاد کے شہتوتوں پر
وصل کا ریشم خود بھی بنایا جا سکتا ہے
حضرت سائیں فریدؒ اگر دیں ساتھ ہمارا
اب بھی ویراں تھل کو بسایا جا سکتا ہے
مجھ میں بھی شامل ہے اس مٹی کا عنصر
مجھ میں بھی اک پھول اگایا جا سکتا ہے​
کچھ سخن مشورہ کروں گا میں
کچھ سخن مشورہ کروں گا میں
اس کی آنکھیں پڑھا کروں گا میں

لے کے آؤں گا خود کو ساحل پر

اور پھر جانے کیا کروں گا میں

زندگی پھر نئی نئی سی ہو

اب کوئی حادثہ کروں گا میں

ریت پر پاؤں جم نہیں سکتے

ختم یہ سلسلہ کروں گا میں

صورت اشک تجھ میں آؤں گا

آنکھ بھر میں رہا کروں گا میں

اس کی تصویر لاؤں گا گھر میں

اس سے باتیں کیا کروں گا میں

اور تو کچھ نہ دے سکوں گا تجھے

تیرے حق میں دعا کروں گا میں

چاند ناراض ہو گیا تو ندیمؔ

گھر میں تنہا رہا کروں گا میں
ہوا میں ایسے مجھ کو بے سہارا چھوڑ دیتا ہے
ہوا میں ایسے مجھ کو بے سہارا چھوڑ دیتا ہے
کہ جیسے ہاتھ سے کوئی غبارہ چھوڑ دیتا ہے
زمیں کو پہلے سورج دھوپ کا پیوند کرتا ہے
پھر اس کے بعد ستلج بھی کنارا چھوڑ دیتا ہے
میں اس کو ڈھونڈنے نکلوں تو برسوں خرچ ہوتے ہیں
اگر مل جائے وہ مجھ کو دوبارہ چھوڑ دیتا ہے
پھر اس کی یاد یوں آئی بدن کے خشک جنگل میں
کہ جیسے گھاس میں کوئی شرارا چھوڑ دیتا ہے​
محو ہنر ہوں سنگ یا تیشہ کوئی تو ہو
محو ہنر ہوں سنگ یا تیشہ کوئی تو ہو
سر پھوڑنے کا آج بہانا کوئی تو ہو
سوچوں ہوں کٹ ہی جائے گی تنہا تمام عمر
لیکن تمام عمر، خدارا کوئی تو ہو
اک عمر بن ملے ہی کٹی اور ایک عمر
یہ سوچتے کٹی کہ بہانا کوئی تو ہو
تنہائی اس قدر ہے کہ عادت سی ہو گئی
ہر وقت کہتے رہنا ہمارا کوئی تو ہو
کچھ اس لیے بھی تم سے محبت ہے مجھ کو دوست
میرا کوئی نہیں ہے تمہارا کوئی تو ہو
کمرے میں آج میرے علاوہ کوئی نہیں
کمرے میں آج میرے علاوہ کوئی تو ہو​
گھٹن اور حبس میں کچھ دم ابھی محفوظ ہیں
گھٹن اور حبس میں کچھ دم ابھی محفوظ ہیں
یہ ہے احسان اس کا ہم ابھی محفوظ ہیں
ہمارے ہاتھ گرچہ کٹ چکے ہیں جنگ میں
تمہارے عشق کے پرچم ابھی محفوظ ہیں
اگرچہ آنکھ کا سورج سوا نیزے پہ ہے
تمہاری یاد کے موسم ابھی محفوظ ہیں
ہماری ڈائری پڑھنا کبھی تم غور سے
کہانی کے لیے یہ غم ابھی محفوظ ہیں
ندیمؔ اس نے نہیں بدلا ہے غم کا پیراہن
تو پھر یوں ہے کہ کچھ ماتم ابھی محفوظ ہیں​
 
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
تمہارا ہجر کاندھے پر رکھا ہے
نہ جانے کس جگہ میں جا رہا ہوں
مری پہلی کمائی ہے محبت
محبت جو تمہیں میں دے چکا ہوں
مرے چاروں طرف اک شور سا ہے
مگر پھر بھی یہاں تنہا کھڑا ہوں
کوئی تو ہو جو میرے درد بانٹے
مسلسل ہجر کا مارا ہوا ہوں
محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں​
اپنی تصویر لگا دی ہے ترے خواب کے ساتھ
اپنی تصویر لگا دی ہے ترے خواب کے ساتھ
میں نے یوں عمر گزاری ہے ترے خواب کے ساتھ
میں جہاں پر تھا وہیں پر ہوں مگر جانے کیوں
روز اک دھول سی اڑتی ہے ترے خواب کے ساتھ
شبنمی رات کی سوغات بھی اشکوں کی طرح
نوکِ مژگاں پہ سجالی ہے ترے خواب کے ساتھ
کیا خبر اب یہ سفر پاس ترے لے جائے
رات اک چڑیا سی اتری ہے ترے خواب کے ساتھ
ایسا لگتا ہے میں اب نیند میں بھی روتا ہوں
آج اک جھیل سی دیکھی ہے ترے خواب کے ساتھ​
زبان دے کے عجب بے زبانی دیتا ہے
زبان دے کے عجب بے زبانی دیتا ہے
کوئی تو ہے جو مجھے رائیگانی دیتا ہے
یہ ریگزار ضروری نہیں سبھی کو ملیں
میاں یہ عشق ہے تازہ کہانی دیتا ہے
وہ سوکھی ٹہنیوں کو کاٹتا ہے پہلے پھر
مری جڑوں میں محبت کا پانی دیتا ہے
بنا تو لی ہے محبت کی سلطنت میں نے
نہ جانے کس کو خدا حکمرانی دیتا ہے
ہر ایک شخص یہی دیکھنے کو بیٹھا ہے
تمہارا ہجر کسے کیا نشانی دیتا ہے
وہ مجھ کو پھول تو تازہ ہی بھیجتا ہے ندیمؔ
مگر کتاب ہمیشہ پرانی دیتا ہے​
شامِ غم کے سب سہارے ٹوٹ کر
شامِ غم کے سب سہارے ٹوٹ کر
ختم ہو جائیں نہ تارے ٹوٹ کر
خواہشیں کچھ مر گئی ہیں نیند میں
خواب کچھ بکھرے ہمارے ٹوٹ کر
بارشوں نے کام دریا کا کیا
کیا کریں گے اب کنارے ٹوٹ کر
اک تمہارا عشق زندہ رہ گیا
مر گئے ہم لوگ سارے ٹوٹ کر
مجھ کو پھر اذنِ مسافت دے گئے
آسماں پر کچھ ستارے ٹوٹ کر
ہم سفالِ بے مرکب ہیں ندیمؔ
گر رہے ہیں بت ہمارے ٹوٹ کر​
بچھڑ کے تجھ سے کہاں دور ہم کو جانا ہے
بچھڑ کے تجھ سے کہاں دور ہم کو جانا ہے
یہی کہ شام سے پہلے ہی لوٹ آنا ہے
تو میری آنکھ کو پہنا لہو لہو آنسو
کہ پانیوں سے تو رشتہ مرا پرانا ہے
تمام شب کی تھکن کو اتارنے کے لیے
ہماری آنکھ میں اب چاند نے نہانا ہے
یہ چاہتوں کا نہیں نفرتوں کا قصہ ہے
ابھی تو نام کہانی میں تیرا آنا ہے
ابھی تو صبح کے آثار بھی نہیں جاگے
ابھی تو شور پرندوں نے بھی مچانا ہے​
کبھی درخت کبھی جھیل کا کنارا ہے
کبھی درخت کبھی جھیل کا کنارا ہے
یہ ہجر ہے کہ محبت کا استعارا ہے
تم آؤ اور کسی روز اس کو لے جاؤ
بس ایک سانس ہے اس پر بھی حق تمہارا ہے
خدائے عشق گلہ تجھ سے ہے جہاں سے نہیں
مرے لہو میں محبت کو کیوں اتارا ہے
یہ سوچ لینا مجھے چھوڑنے سے پہلے تم
تمہارا عشق مرا آخری سہارا ہے
ابھی تو کھال ادھڑنی ہے اس تماشے میں
ابھی دھمال میں جوگی نے سانس ہارا ہے​
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
جان اگر جائے تو احسان پرایا جائے
اب مرا نام مرے ساتھ مٹایا جائے
چاندنی کم ہے یہاں سب کے اجالے کے لیے
رات اندھیری ہے بہت چاند جلایا جائے
کرۂ ارض پہ اب نیند اتر آئی ہے
اِن پرندوں سے کہو شور مچایا جائے
سرد پانی میں نہیں ریت پہ مر جاؤں گا
اس سے کیا ہوگا اگر مجھ کو بچایا جائے
اب پرندوں کی نہیں پیڑ کی سازش ہے ندیمؔ
عین ممکن ہے کہ اس بار یہ سایہ جائے​
جس طرف اس نے راستہ موڑا
جس طرف اس نے راستہ موڑا
خود کو اس سمت میں نے موڑ دیا

تجھ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست

فیصلہ اس پہ میں نے چھوڑ دیا

اب مرے ہونٹ بھی ہیں پتھر کے

جس کو چوما اسی کو توڑ دیا
نذرِ غالب
کاٹھ کی روٹی، ترے عشق کی زنجیر سو ہے
جو وراثت میں ملی تھی مجھے جاگیر سو ہے
غم ترا مجھ کو بدل پایا نہیں برسوں تک
یعنی دیوار پہ لٹکی تھی جو تصویر، سو ہے
تجھ سے مل کر بھی گنوایا نہیں کچھ بھی میں نے
خواب آنکھوں میں تھی اک حسرتِ تعبیر سو ہے​
آنکھوں کی جھیل، جھیل کا پانی بدل گئی
آنکھوں کی جھیل، جھیل کا پانی بدل گئی
اس بار مجھ کو نقل مکانی بدل گئی
اک قافلہ کسی کو اکیلا سا کر گیا
پھر اس کے بعد ساری کہانی بدل گئی
روشن ہوا جو دن تو مجھے نیند آ گئی
اور ساتھ مرے رات کی رانی بدل گئی​
 
عشق میں ہارے ہوئے جسم
تم نے دیکھی ہے کبھی
عشق کے مست قلندر کی دھمال
درد کی لے میں پٹختا ہوا سر اور تڑپتا ہوا تن من
پیر پتھر پہ بھی پڑ جائیں تو دھول اٹھنے لگے
اور کسی دھیان میں لپٹا ہوا یہ ہجر زدہ جسم
رقص کرتا ہوا گر جائے کہیں
تو زمیں درد کی شدت سے تڑپنے لگ جائے
ہجر کی لمبی مسافت کا رِدھم گھوڑوں کی ٹاپوں میں گندھا ہے
رقص دراصل ریاضت ہے کسی ایسے سفر کی
جسے وہ کر نہیں پایا
تم نے دیکھے ہیں کبھی
شہر کے وسط میں گھڑیال کے روندے ہوئے پل
جن میں چاہت کے ہزاروں قصے
عشق کے سبز اجالے میں کئی زرد بدن
اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں
تم نے دیکھے نہیں شاید
عشق میں ہارے ہوئے جسم
جسم ایسے جو کبھی پوریں بھی کٹ جائیں
توپھر خوں کی جگہ اشک نکلتے ہیں وہاں
حسرتیں دل میں چھپائے ہوئے کچھ لوگ یہاں
دم بدم بہتی ہوئی آنکھوں سے لکھتے ہیں کہانی
یہ نئی بات نہیں
واقعہ ایک ہے کردار بدل جاتے ہیں
ایک تیشہ ہے مگر وار بدل جاتے ہیں​
تم نے کوئی خط نہیں لکھا
تو تم ناراض ہو مجھ سے
خطا تو ایک تھی لیکن سزا اتنی۔۔۔
کہ پورا سال
یعنی تین سو پینسٹھ دنوں سے
تم نے کوئی خط نہیں لکھا
تمہیں معلوم ہے میں تین سو پینسٹھ دنوں میں
کن عذابوں میں رہا ہوں
تمہیں معلوم ہی کیا زعم جب بھی ٹوٹتا ہے تو
محبت بے یقینی کی سڑک پر چلنے لگتی ہے
بہت سے واہمے دیمک کی صورت آدمی کو چاٹ لیتے ہیں
تو دل بھی ٹوٹ جاتا ہے
تمہیں معلوم ہو شاید
درونِ جسم جب کچھ ٹوٹتا ہے تو
کوئی آواز بھی پیدا نہیں ہوتی
ذرا سی دیر کو بس نبض رکتی ہے اندھیرا پھیل جاتا ہے
تشدد سے بھرے تنہائی کے لمحے
قیامت بن کے ایسے ٹوٹتے ہیں
جس طرح پتھر برستے ہیں
تمہیں معلوم ہی کیا انتظارِ خط میں
آنکھیں سرد گلیوں میں ٹھٹھر کر مرنے لگتی ہیں
مری پیشانی پر ریکھاؤں کی صورت صدائیں رقص کرتی ہیں
دشائیں طنز کرتی ہیں
سنو! اب میں صدائیں دیتے دیتے تھک گیا ہوں
اگر تم خط نہیں لکھ سکتے تو پھر خود ہی لوٹ آؤ
تمہیں میں اور گاؤں کی ضعیف العمر گلیاں یاد کرتی ہیں​
فصیل عشق کی بنیاد سے آواز آئی
خیالِ یار کی انگلی کسی معصوم جذبے نے پکڑلی ہے
فصیل عشق کی بنیاد سے آواز یہ آئی
کہ ’’بابا‘‘ ضد نہیں کرتے
محبت ایسی آوارہ مسافت سے نہیں ملتی
قبیلے چھوٹ جاتے ہیں
ہم ایسے لوگ تو دراصل چاہت کے کھلونے ہیں
جو اکثر ٹوٹ جاتے ہیں
محبت کے شبستاں میں رہائش کیسے ممکن ہو
کہ ہم محنت کش اہل وفا اکثر
کسی زندان کی دیوار میں چنوائے جاتے ہیں
سنو ہم لوگ تو مجنوں کے وارث ہیں
اگر صحراؤں سے نکلیں تو پھر پتھر کے پھولوں سے
بدن مہکائے جاتے ہیں
فصیل عشق کی بنیاد سے آواز آئی
عشق تیشہ اور سر کا درمیانی فاصلہ ہے
جس کو طے کرنے لگیں تو عمر بھر چلنا بھی کم ہے
اور تھک جائیں تو اک لمحہ بھی کافی ہے​
مسافتیں
تھکن سے اب جبینوں پر پسینے کی جگہ کیوں خون رِستا ہے
لہو جیسے رگوں کو چھوڑ کر اشکوں میں دوڑے ہے
بدن میں کیسا ہنگامہ بپا ہے
تھکن آنکھوں میں کیوں ہے
کہاں جانا ہے ہم کو
ہماری منزلیں کیا ہیں
سنو! تم بھی مسافر ہو
یہاں میں بھی مسافر ہوں
تو ہم کیسے مسافر ہیں
ہمارے ناک میں کس کی مشیت کی نکیلیں ہیں
کہ جن کی سب مہاریں اک ہوا کے ہاتھ میں ہیں
ہوا جو اپنے کانوں میں ہمیشہ سائیں سائیں رقص کرتی ہے
کہ ہم سب ڈھور ہیں جن کے گلے میں ٹلیوں کا شور ہے
اور ایک چرواہا ہمیں بس ہانکتا جاتا ہے
اور ہم چل رہے ہیں
(یعنی ہم عیسیٰ کی بھیڑیں ہیں؟)
ہماری زندگی اک بوجھ کی مانند ہے
وہ بوجھ جو ہم نے بدن کے اِس کچاوے پر
ہمیشہ لاد کر چلتے ہی رہنا ہے
ہم اپنے پاس مرنے کا ہنر بھی تو نہیں رکھتے
ٹھہر جائیں کسی پل کوئی گھر بھی تو نہیں رکھتے
کہاں پر کون بچھڑا ہے خبر بھی تو نہیں رکھتے
کہاں جانا ہے ہم کو ۔۔۔​
اداسی بڑھنے لگتی ہے
کسی یاد میں گم صم، تھکی ہاری
ستاروں کے نگر سے شام جب بھی لوٹ آتی ہے
مری آنکھوں کے ویراں صحن میں سر کو جھکائے چلنے لگتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
مرے کانوں میں جب بھی وصل کے لمحوں کی
اک آہٹ سی آتی ہے
تو میری، ہجر آلودہ سی پلکوں پر ستارے جاگ اٹھتے ہیں
کسی کی شکل بنتی اور بکھرتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
کبھی جب ان گنت صدیوں سے چلتے قافلوں کا سلسلہ
مجھ تک پہنچتا ہے
توہجرت پاؤں سے سرگوشیاں سی کرنے لگتی ہیں
اداسی بڑھنے لگتی ہے
میں جب بھی ریگزاروں کی کہانی پڑھنے لگتا ہوں
کسی کی یاد میرے گھر کی دیواروں پہ
ننگے پاؤں اکثر چلنے لگتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
اداسی جب بھی بڑھتی ہے
تو مجھ کو دل کے بے مقصد دریچوں، طاقچوں سے جھانکتی ہے
اور مرے ہونٹوں کی خاموشی سے مجھ کو مانگتی ہے
مرے سینے پہ پھر یہ وحشیانہ رقص کرتی ہے
یہ میرے جسم کے کتبے پہ کوئی لفظ لکھتی ہے
اداسی روز بڑھتی ہے​
سمجھوتہ
آؤ ہم اس عشق کا کوئی نام رکھیں
کچھ سپنے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو
صرف کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے
اور کچھ بندھن ایسے بھی تو ہوتے ہیں
جن کو بس محسوس کیا جا سکتا ہے
پیڑ کے پتے گر جائیں تو
پھر بھی اس پر ویرانے تو بستے ہیں
دل کی کتنی خواہشیں بھی تو ایک ساتھ رہ سکتی ہیں
اک گھر میں دو کمرے بھی تو ہو سکتے ہیں
اک کمرے کے دو حصے بھی تو ہو سکتے ہیں
کچھ ناممکن‘ ممکن بھی تو ہو سکتا ہے
جیون سے سمجھوتہ بھی تو ہو سکتا ہے​
چرخہ
ہمارا مذہب تو عشق ہے
جس کی ابتدا بھی اور انتہا بھی
کسی بھی ان دیکھے واقعے سے جڑی ہوئی ہے
یہ جسم کیا ہے یہ جان کیا ہے؟
یہ زندگی کا نشان کیا ہے؟
یہ کون شب بھر نظامِ خواب وصال ہم میں چلا رہا ہے؟
یہ کون جسموں کی روئی چرخے پہ کاتتا ہے
تمہارا دُکھ ہے
تمہارا دکھ بھی عجیب دکھ ہے
ہمارے جسموں میں دھڑکنوں کے ردھم پہ دھمال ڈالتا ہے
ہماری مٹی اڑا رہا ہے
ہمارا کیا ہے
ہمیں تو چرخے کے چکروں میں کسی نے الجھا دیا ہے ایسے
کہ ریت تھل کی ہمارے زخموں کے راستے سے
ہمارے ذہنوں میں آ گئی ہے
فریدؒ سائیں سنبھالے رکھنا
کہ ہم ابھی تھل سے آشنا بھی نہیں ہوئے ہیں
اور عشق چرخے کے چکروں میں
ہمارے جسموں کے سارے دھاگے الجھ چکے ہیں​
ابھی تک کچھ نہیں بدلا
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں
دیکھو ابھی تک کچھ نہیں بدلا
مرے بستر پہ وہ ہی رات تکیے سے لپٹ کر رو رہی ہے
جس کا ہم نے ’’وصل کی شب‘‘ نام رکھا تھا
مرے کمرے کی اک دیوار پہ تصویر میں وہ شام کا منظر
تمہاری یاد میں ڈوبا ہی رہتا ہے
اذیت سے بھرا اک دُکھ
ابھی تک میز پر رکھے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے پر پڑا ہے
جو محبت کے کسی بھی آخری جملے میں ہوتا ہے
محبت اور نفرت کا ہر اک لمحہ مرے سینے میں رکھا ہے
نہ جانے جرم کیا ہے اور کیسی قید ہے جس میں
میں اپنے جسم کا ہر ایک حصہ قید پاتا ہوں
چلوں تو پاؤں میں وعدوں کی زنجیریں کھنکتی ہیں
تمہاری راہ تکتی ہیں
کہیں بھی جا نہیں سکتا
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا
وہیں موجود ہوں شاید بہت محدود ہوں
دیکھو ابھی تک کچھ نہیں بدلا​
 
خواب ٹوٹ جاتا ہے

چاند سا بدن کوئی
آنکھ کی حویلی میں
روز ایسے آتا ہے
نور پھیل جاتا ہے
روشنی سی ہوتی ہے
آنکھ کی سیاہی میں
آنکھ کھلنے لگتی ہے
اور ہماری پلکوں کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے
خواب ٹوٹ جاتا ہے
خواب ٹوٹ جانا بھی
اک عجب اذیت ہے
خواب ٹوٹ جائے تو
نیند اکثر آنکھوں میں
بین کرنے لگتی ہے
ماتمی سی آنکھوں میں
ایک شکل ابھرتی ہے
اجنبی سے چہرے کو کون یاد رکھتا ہے
یاد پھر بھی کرنا ہے
ایک خواب اترنا ہے
ایک خواب کی خاطر
رات وضع کرتے ہیں
اور سونے لگتے ہیں
خواہشوں کے جنگل میں
راستے نہیں ہوتے
بھولنے کے ڈر سے ہم
خود ہی لوٹ آتے ہیں
خواہشوں کے جنگل میں
تب کوئی بلاتا ہے
بھولنے کے ڈر سے ہم
پھر وہاں نہیں جاتے
ہم وہاں نہ جائیں تو کوئی روٹھ جاتا ہے
اور پھر اچانک ہی خواب ٹوٹ جاتا ہے​
سورج مکھی
بقا کا مسئلہ ہے
ہمیں ہر روز اک بے رحم سورج کی طرف جھکتے ہی رہنا ہے
یہ کیسا مسئلہ ہے جس کا واحد حل خمیدہ سر ہی رہنا ہے
بقا شاید خودی کی موت میں ہے
اگر یہ سچ ہے تو پھر اس بقا سے موت بہتر ہے
سمجھ میں بھی نہیں آتا
ہمارا دھوپ سے یہ کیسا رشتہ ہے
نہ جانے کیوں
ہمارا جسم جب ہر روز سورج ڈوبتے ہی
جھکنے لگتا ہے۔۔۔ تو لگتا ہے
جبینوں پر کسی سجدے کا اب بھی فرض باقی ہے
یہ کیسا قرض باقی ہے
ہماری زندگی کیا ہے
ہماری زندگی کی دوڑ تو بس صبح سے لے کر
اچانک دوپہر کو ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد
جھک جانے کے لمحے آنے لگتے ہیں
ہمیں معلوم ہی کیا زرد سورج کیسا ہوتا ہے
ہمیں سورج کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کا حوصلہ کب ہے
عجب بے اختیاری ہے
یہ کیسا خوف طاری ہے
ہمیں صدمات سہنا ہیں ہمیں خاموش رہنا ہے
کڑکتی دھوپ کے ہر ظلم کو تسلیم کرنا ہے
ہمیں کوئی بتائے تو ہمارے چہروں کی
اس زرد رنگت کا سبب کیا ہے؟
کوئی چڑیا ہماری زرد رنگت کیوں نہیں چگتی؟​
تم میری ضرورت ہو
تم وجہ محبت ہو
تم حسن کی دولت ہو
ہر رنگ تمہارا ہے تم پھول کی صورت ہو
میں ہجر کا مارا ہوں
تم نظم مکمل ہو، تم شعر کی لذت ہو
میں وہم کی صورت ہوں
تم ایک حقیقت ہو
میں رات دسمبر کی
تم وصل کی ساعت ہو
میں کچھ بھی نہیں شاید تم حد سے زیادہ ہو
اللہ کی قدرت ہو
میں بول نہیں سکتا
تم لفظ کی صورت ہو
تم میری ضرورت ہو​
کبھی تم سامنے آؤ

ہمیشہ خواب بن کر خواہشوں کی آنکھ میں
تم گم ہی رہتے ہو
لرزتے سائے کی صورت ہمیشہ دسترس سے دور رہتے ہو
کبھی تم سامنے آؤ
تمہیں وہ خوف دکھلاؤں
کہ جو خوابوں کے اکثر ٹوٹ جانے پر
کسی کی مردہ آنکھوں سے ٹپکتا ہے
تمہیں سمجھاؤں دیواروں سے باتیں کیسے ہوتی ہیں
کوئی بھی بات جو ہوتی نہیں وہ کس قدر تکلیف دیتی ہے
بدن کے چاک پر خواہش کی مٹی سے کھلونے کیسے بنتے ہیں
جدائی اور تنہائی کے ڈر سے
بدن یوں ڈھیر ہوتا ہے
کہ جیسے بارشوں میں کوئی کچا گھر پگھلتا ہے
سنو! جب بھی اداسی قد سے بڑھ جائے
تو پستی کا بہت احساس ہوتا ہے
مرا وجدان تم کو دیکھ کر ہی وجد میں آتا ہے
تو میں شعر کہتا ہوں یا خود کو روند دیتا ہوں
کبھی تم سامنے آؤ کہ میری چند غزلیں اور نظمیں نامکمل ہیں
تمہیں کھونے کے ڈر سے
اب تمہیں پانے کی خواہش بھی نہیں دل میں
مگر پھر بھی کبھی تم سامنے آؤ​
بھول جاؤ مجھے
رات دن تم غزالی آنکھوں سے
کب تلک اشک ہی بہاؤ گی
صندلی جسم کو محبت کی
آگ میں کب تلک جلاؤ گی
کب تلک یونہی سوچ کر مجھ کو
درد لکھو گی، درد پہنو گی!
میں نہیں جانتا کہ کل کیا ہے
میرا نام و نشاں بھی مٹ جائے
ایک نظم اور اک غزل کے لیے
جانے کتنا سفر کروں گا میں
یہ بھی ممکن ہے حادثہ کوئی
میرے آنے کے انتظار میں ہو
تم کو تو حق ہے زندہ رہنے کا!
خوب صورت ہو زندگی کی طرح
اور بھی لاکھوں چاہنے والے
تم کو مل جائیں گے زمانے میں
راحتیں اس جہاں میں کافی ہیں
چاہتیں اس جہاں میں کافی ہیں​
فرض
تم ساز بجاتے رہنا
یہ کشتی ڈوب بھی جائے تو
یہ عرشہ ٹوٹ بھی جائے تو
افراتفری کا عالم ہو
ہر سمت ہی موت نظر آئے
عرشے سے لاشے گرتے ہیں
او رلوگ مسلسل مرتے ہیں
تم موت سے مت گھبرانا
یہ فرض نبھاتے رہنا
تم ساز بجاتے رہنا

دکھ اندر سے کھا جائیں تمہیں
تم میں سے گر کچھ سازندے
سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں
ہر خوف سے ہوکر بے پرواہ
تم چہرے پر مسکان لیے
اس برف کے ٹھنڈے تودے پر
جو خوشیوں کے سُر تان میں ہو
وہ راگ سناتے رہنا
تم ساز بجاتے رہنا​
نعیم بھائی اور خضر بھائی کے لیے ایک نظم
تمہارا پیار میرا کل اثاثہ ہے
تمہارے لفظ سچے ہیں
میں جھوٹا ہوں
تمہارے سامنے کیا ہوں
میں اک رائی کا دانہ ہوں
مرے لفظوں کی سچائی، مٹھاس اور ساری کوملتا
(مرے لفظوں میں گر کچھ ہے)
تمہارے پیار کے چھوٹے سے جذبے سے بھی کمتر ہے
میں شاید کچھ نہیں ہوں
اگر کچھ ہوں
تو سچ یہ ہے تمہاری ہی بدولت ہوں
مرے دامن میں کیا ہے میں تہی دامن
تمہارے پیار کے بدلے تمہیں کیا دے سکوں گا
تمہارے سامنے کیا ہوں
میں اک رائی کا دانہ ہوں
بہت چھوٹا بہت کمتر​
میرے محبوب

میرے محبوب مجھے اپنی محبت دے دے
اس سے پہلے کہ کہیں بخت نہ ڈھل جائے مرا
پھر کسی رات کے آنگن میں بکھر جاؤں میں
میری آنکھوں میں جو ہے طور، جلا دے مجھ کو
میرے سینے میں دھڑکتا ہوا دل تھم جائے
میری بانہیں جو اٹھی ہیں وہ نہ شل ہو جائیں
شوقِ منزل نہ کہیں چھوٹے کناروں کی طرح
ٹوٹ جاؤں نہ کہیں اپنے سہاروں کی طرح
اس سے پہلے کہ کہیں خواب بکھر جائیں مرے
میرے محبوب مجھے اپنی محبت دے دے
وہ محبت جو کسی نے نہ کسی سے کی ہو
جس کو پا کر مرے زخموں کو قرار آ جائے
کتنے لفظوں کی جلن سے میں جلا جاتا ہوں
کتنی صدیوں کی تھکن سے میں مرا جاتا ہوں
اپنی زلفوں کی گھٹا سے کوئی بارش برسا
اپنے سانسوں کی نمی سے تو مجھے تر کر دے
اپنی بانہوں کی لطافت سے شناسائی دے
صندلی جسم کی خوشبو سے معطر کر دے
اس سے پہلے کہ مری روح مرا ساتھ نہ دے
میرے محبوب مجھے اپنی محبت دے دے​
مجھ کو یاد کر لینا

خزاں کے زرد پتوں پر
کوئی بھولی کہانی یا کسی کی زندگی کا
جب کوئی بھی باب تم لکھنا
تو مجھ کو یاد کر لینا!
کبھی تم شام کے چپ چاپ اور سہمے ہوئے کونے میں
تنہائی کے ڈر میں مبتلا ہونا
تو مجھ کو یاد کر لینا
کبھی تم پر دسمبر لمبی راتوں کے اگر پتھر گرائے
اور تم سے کچھ نہ بن پائے
کسی بھی وصل کے لمحے کو پھر تم دھیان میں لانا
تو مجھ کو یاد کر لینا
میں اک احساس ہوں
دیکھو وہی احساس ہوں میں جو
تمہاری زندگی کی چند راتوں میں تمہارا تھا
میں آوارہ کرن ہوں
جو کہ ویرانوں پہ قبروں پہ سخاوت کرنے لگتی ہے
کبھی تم روشنی کی چاہ میں حد سے گزر جانا
تو مجھ کو یاد کر لینا​
معمولات
روز رات کو اٹھ کر
خواہشوں کے گارے سے
ایک گھر بناتا ہوں
اور ٹوٹ جاتا ہوں
ایک کام کرنا ہے
ایک نظم لکھنی ہے
ایک شعر کہنا ہے
چاند جب ابھرنا ہے
وصل کی کوئی ساعت
ہجر کے مقابل ہو
چاند جب بھی آئے گا
معجزہ دکھائے گا
رات کے اندھیرے میں
گم سا ہونے لگتا ہوں
اب تو کوئی سازش ہو
جگنوؤں کی بارش ہو
ہجر کی کوئی ساعت
رات کے دریچے پر
اس طرح اترتی ہے
شام جیسے ڈھلتی ہے
جس سڑک کے چہرے پر
زرد پھول بکھرے ہیں
اس سڑک پہ چلتے ہیں
راستہ بدلتے ہیں​
 
آتما تھک چکی ہے
بہت تھک چکا ہوں​
یہی خود کو لکھنا اذیت کا سہنا​
محبت کی نظمیں مکمل نہ ہونی​
ہوا کا کوئی بھید مجھ پر نہ کھلنا​
میں کیا کر رہا ہوں​
خبر بھی نہیں ہے کسے لکھ رہا ہوں​
بہت تھک چکا ہوں​
وہی جھیل اور جھیل کا اک کنارا​
وہ قصہ ہمارا​
وہی نامکمل کہانی بھلائے نہ بھولے​
وہی چند پتھر۔۔۔ لرزتے ہوئے عکس​
وہی جھیل کا رقص​
وہی کیفیت تنگ ہونے لگا ہوں​
بہت تھک چکا ہوں​
بدن میں تھکاوٹ نہیں پر مری آتما تھک چکی ہے​
مسافت بھی جیسے بہت بڑھ چکی ہے​
تذبذب ہے سکتہ ہے سانسوں کا جوتھا ردھم ٹوٹتا جا رہا ہے​
کوئی ساتھ ہے چھوٹتا جا رہا ہے​
مرے ہاتھ پاؤں بھی شل ہو رہے ہیں​
میں پانی میں اب ڈوبتا جا رہا ہوں​
بہت تھک چکا ہوں​
کوئی ایسا کھیل سکھا دے مولا
مجھ کو بھی کوئی ایسا کھیل سکھا دے مولا​
اکثر میں نے دیکھا ہے​
تو جب کھیلنے لگتا ہے تو​
کسی کی کوئی چیز یا شیشہ ٹوٹ بھی جائے​
تجھ پر کوئی بھی الزام نہیں آتا​
بچے کو تو بوڑھا کر دے​
اور بڑھاپے کے دکھ اس کی پیٹھ پہ دھر دے​
ماں سے اس کا بیٹا چھین کے اس کو اندھا کر دے​
کسی کو دکھ دے​
یا تو کسی کے دکھ پہ ایک بھی آنسو تک نہ بہائے​
تو بھی تجھ پہ کوئی الزام نہیں آتا​
دکھ سکھ کی اس دھوپ اور چھاؤں کا​
تجھ پہ ذرا بھی اثر نہیں ہوتا​
مجھ کو بھی کوئی ایسا کھیل سکھا دے مولا​
یعنی دکھ سکھ مجھ تک آتے آتے بے معنی ہو جائیں​
سر سے پاؤں تک مسافت
ایک بے معنی مسافت کی تھکن پہنے ہوئے یہ قافلہ چلنے لگا ہے​
پانیوں کے شور میں بھی رخت جاں کشتی کی صورت​
تیرتا جاتا ہے اب تو بادباں بھی پھٹ چکے​
اک مسافت اور ہے​
زندگی کی یہ مسافت میرے چہرے پر ذرا تحریر ہو​
سو کوئی تدبیر ہو​
میرے سورج اب کبھی چھپنا نہیں​
تاکہ اپنے سایے کو ہی روندنے کا یہ سفر جاری رہے​
اور وجد بھی طاری رہے​
زندگی سے جنگ بھی جاری رہے​
گو زندگی کی جنگ میں مالِ غنیمت خواب ہیں​
پر آج خوابوں سے نکل کر میں حقیقت کے سمندر پر​
دوانہ وار چلنے کے لیے تیار ہوں​
میرے پیروں کو محبت کی تو مت دھمّال پہنا​
پھر کہیں ایسا نہ ہو ان گھنگھرؤں کا شور سن کر یہ سمندر جاگ اٹھے​
سر سے پاؤں تک مسافت طے ہوئی تھی​
اور میں دیوار سے لگ کر ابھی تک​
اپنی قامت کا تعین کر رہا ہوں​
آج خود سے ڈر رہا ہوں​
آج میں چھپنے لگا ہوں​
آ مجھے تو ڈھونڈ اور بس ڈھونڈ۔۔۔​
 

نایاب

لائبریرین
محترم عبدالرزاق قادری صاحب
بہت شکریہ آپ کی وساطت سے اک اچھے حساس شاعر سے ملاقات ہوئی ۔
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو​

تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں​
 

باباجی

محفلین
واہ واہ کیا خوب تعارف کروایا ہے آپ نے
کہ ہمیں اب ان کی شاعری کہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی
اور لذتِ ہجراں تو واقعی ہر کوئی نہیں چکھ سکتا کہ اس سے زیادہ کڑوی اور تکلیف دہ شاید کوئی شے نہیں
ایک مصرعہ یاد آگیا
"اُس وقت مجھے بھٹکادینا جب سامنے منزل آجائے"
وصل تو ایسے لوگوں کے لیئے زہرِ ہلاہل ہوتا ہے ۔ لیکن ایسے معاملات میں جب وصل ہوتا ہے تو اس کا نشہ بھی دائمی ہوتا ہے
لیکن اس مادی زندگی میں وصال تو بس جسمانی اتصال کی حد تک ہے
اور شاید اسی وصال سے بھاگ رہے ہیں حضرت اور یہ بھی مانتے ہیں
محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
مگر پھر وہی بات کے لذتِ ہجراں سے فرار بہت کٹھن ہے سرکار
اور جناب ندیم بھابھہ پر یہ شعر صادق آتا ہے
تکلیفِ ہجر دے گئی راحت کبھی کبھی
بدلہ ہے یوں بھی رنگِ محبت کبھی
اور جہاں اس میں رنگ تصوف پیدا ہوجائے تو پھر غلام فرید و وارث شاہ جنم لیتے ہیں
اور کلاسیقیت و مجنونیت کے بغیر وہ درد وہ سوز وہ گداز پیدا نہیں ہو سکتا
سرکار غلام فرید فرماتے ہیں
جنّیاں تن میرے لگیاں تینوں ہک لگے تے تُو جانے
یہ لگیوں کی بات ہے جناب اور لگی والوں کو ہی سمجھ آئے گی
یہ خاندانی پس منظر ، یہ شان و شاکت تو ہیچ ہے اس لگی کی لذت و نشہ ہجر کے آگے
تو جناب عبدالرزاق قادری بھائی
آپ کی بہت مہربانی کے آپ نے ہمیں جناب ندیم بھابھہ سے متعارف کروایا
خوش رہیں
 

عاطف بٹ

محفلین
ندیم کی یہ کتاب مجھے کئی سال پہلے کہیں سے ملی تھی اور اس حد تک پسند آئی کہ میں نے کلام کی تعریف کرنے اور داد دینے کے لئے ان سے فون پر رابطہ کیا۔ انہی دنوں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کی ایک اور کتاب بھی منظر عام پر آنے کو ہے۔
 
Top