میں نے خوشیوں کے دیس جانا ھے

sadia saher

محفلین
سنو ۔۔۔۔۔۔۔ !!!!
میں نے خوشیوں کے دیس جانا ھے
جہاں مسکراہٹیں ھوں
جہاں خوشیوں کے ترانے ھوں
سنو ——!!!
مجھے سکون کی تلاش ھے
مجھے دھشت ذدہ چہرے بے چین کرتے ھیں
سنو—–!!!
کیا تم مجھے بتاؤ گے
یہ زندگی کہاں ملتی ھے
میرے دیس میں موت کے سوداگر
گلی گلی موت بیچ رھے ھیں
ھر طرف لاشیں ھیں
خوف ذدہ چہروں کے بیچ
کچھ زندہ لاشیں
مجھے ان کے لیے زندگی چاھیے
ان بے سکون لوگوں کے لیے تھوڑا سا سکون چاھیے
کچھ مسکراہٹیں بھیک میں مل سکتی ھیں ؟؟؟
زندگی کے پل کچھ ادھار مل جائیں گے ؟؟
چند سانسیں —-
سکون کے لمحے کہیں سے لا دو
میرے دوست میرے مددگار
کون ھے ایسا
مجھے خوشیوں کے کچھ پل چاھیے
ھنستا ھوا حال
مسکراتا ھوا مستقبل
ایک ایسا ماضی جیسے یاد کر کے چہرے پہ آسودہ مسکراہٹ آجائے
مجھے خوشیوں کے دیس کا رستہ نہیں معلوم
سر پہ میرے
تا حدِ نظر تہہ در تہہ دکھوں کے بادل چھائے ھیں
میری آہیں میری دعائیں ان سے ٹکرا کر واپس لوٹ آتی ھیں
ایک کالی رات چھائ ھے
ایک مسلسل کالی رات ھے
سحر نجانے کب ھوگی
سنو ——- !!!!
کوئ آس کا دامن تھاما دو
کوئ جگنو دے دو
آنے والی سحر کی کوئ خبر
میں نے اپنے لوگوں کی آنکھوں میں چراغ روشن کرنےھے
سنو ——–!!!!
کون سے خزانے کے بدلے یہ ملیں گے ؟؟
یہ چیزیں انمول ھیں
پیسے بھیک میں مل جاتے ھیں
موت کا سامان پیسے سے مل جاتا ھے
موت کے سوداگر پیسے کے بدلے اپنا ایمان بیچ دیتے ھیں
سنو——!!!
مجھے دنیا کی دولت نہیں چاھیے
مجھے کچھ مسکراہٹیں
کچھ خوشیاں چاھیے
کچھ سکون کے لمحے
سنو——!!!!
———————– سعدیہ سحر
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نثری نظم ہے۔ یا مجبوری ہے فاتح!۔ مھاورے کی غلطی ہے دو ایک جگہ، ’مجھے خوشیوں کے دیس جانا ہے‘ درست ہے، یہاں آنے سے پہلے میں تو پنجابی نما اس جملے کو سمجھ ہی نہیں پاتا تھا۔
 
Top