میں نے جب لکھنا سیکھا تھا : از ÷ناصر علی سید

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
مضمون نگار : ناصر علی سید
ایک بہت پرانی حکایت ہے کہ ایک بار ایک مصور نے ایک تصویر بنائی اور اسے اس زمانے کے رواج کے مطابقشہر کے دروازے پر اس ’’نوٹ‘‘ کے ساتھ لگادیا کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اس کی نشاندہی کردیجئے یا پھر درست کردیجئے، بس پھر کیا تھا اللہ دے اور بندہ لے شام تک وہ پہچاننے کی نہ رہی کیونکہ اس پر یار لوگوں نے اصلاح کے نام پر وہ وہ ستم ڈھائے کہ مت پوچھئے اور وہ بے چارہ مصور تو سر پکڑ کر رہ گیا، کسی سیانے نے اسے مشورہ دیا کہ دل چھوٹا مت کرو اور یوں کرو کہ دروازے پر کورا کاغذ لٹکا کر نیچے لکھ دو کہ ’’میری تصویر پر اصلاح دینے والے دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ اپنی کوئی پینٹنگ کوئی تصویر بنادیں‘‘ مصور نے ایسا ہی کیا اور شنید ہے کہ کئی دن تک وہ ’’کورا کاغذ کورا ہی رہا، تخلیق اور تنقید کے موازنے کے لئے یہ تمثیلی حکایت اکثر سنائی جاتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ حضرت انسان کو ایسا موقع ملے تو وہ اسے ضائع نہیں کرتا اور اس بات کا ثبوت دنیا بھر کے اہم تاریخی مقامات کے کھنڈرات اور ’’دیواریں‘‘ ہیں کہ ان پر کیا کچھ ’’بنایا‘‘ نہیں جاتا کیا کچھ لکھا نہیں جاتا اور کچھ نہ ہو تو لکھنے کا شوق اپنا نام اور پینٹنگز کا شوق ایک دل اور اس میں پیوست تیر بنا کر پورا کردیا جاتا ہے بعض منچلے تو دل سے بہتے ہوئے خون کے قطرے بھی بنا کر دکھادیتے ہیں کچھ تاریخی مقامات پر ہاتھوں کے رنگین نشانات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے بارے میں وہی ایک ہی حکایت سینہ بہ سینہ سننے کو ملتی ہے کہ بادشاہ وقت نے یہ عمارت بنوا کر معمار کے ہاتھ قلم کردئیے تھے کہ کسی اور کے لئے وہ ایسی عمارت نہ بنائے سو اس نے اپنے ہاتھ کے نقش دیوار پر چھوڑدئیے تھے۔ حالانکہ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ تصویر یا کوئی تخلیق ہاتھوں کی سرے سے محتاج ہی نہیں ہوتی، بعض زیادہ محتاط ’’بادشاہ‘‘ یہ بھی کرتے ہیں۔
کیا میں آئندہ کوماضی کی گواہی دوں گا
اس نے کاٹی ہے زباں دست ہنر سے پہلے
میں نے دسیوں مقامات پر ہاتھوں کے نقش تاریخی مقامات کی دیواروں پر دیکھے ہیں ، سب سے پہلے یہ نشانات اور یہ کہانی میں نے بہت بچپن میں نوشہرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر زیارت کاکا صاحبؒ سے ذرا پہلے ’’ولئی‘‘ نامی باغات سے گھرے ہوئے گاؤں میں موجود ’’رنگ محل ‘‘ کی دیواروں پر دیکھے اور مقامی لوگوں سے یہ کہانی سنی ، رنگ محل جسے اب قدرے بہتر بنادیا گیا ہے ایک زمانہ میں ’’بدرنگ محل‘‘ کہلانے لگا تھا اس کے اجڑے ہوئے کمرے اور ناقابل رسائی تہہ خانہ اور بے حد رومینٹک چھت اب بھی مجھے بہت ہانٹ کرتی ہے اور میں نے اپنے دو تین سیریل میں اس کی کوٹیشنز کو استعمال کیا ہے۔
اس کی دیواریں بھی وزیٹرز بک بنی ہوئی ہیں ، اچھے برے خط اور تصویریں برش اور پن پنسل توالگ رہے چاقو سے دیواروں پر کندہ کئے ہوئے نام اور اشعار بھی موجود ہیں ان کو پڑھنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے اور میں پڑھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ اسے لکھنے والا اب اس وقت کہاں ہوگا، اپنے نام کے ساتھ جو ایک اور نام اس نے کبھی لکھا تھا وہ اسے مل گئی ہوگی۔ اس کے خواب تشنہ تعبیر ہوں گے، خاص طور پر جن لوگوں نے ساتھ تاریخیں بھی لکھی ہوئی ہیں انہیں پڑھنا اور پڑھ کر حساب لگانا کہ اس تحریر کو کتنا عرصہ ہوگیا یہ الگ سے پرلطف سرگرمی ہوتی ہے ، خیر یہ کام صرف عمارات تک محدود نہیں پہاڑوں کی چٹانوں پر اور درختوں پر بھی اپنی محبت کی اولین سرشاری کے امر لمحات کو کندہ کرلیا جاتا ہے ، پھر زمانوں بعد جب ادھر سے گذر ہوتا ہے تو ان کو ڈھونڈنا بھی ایک دل خوش کن عمل ہوتا ہے خواہ وقت نے ان کے ماتھے پر اپنی مرضی کی کوئی اور ہی کہانی کیوں نہ لکھ دی ہو کہ وقت کا تو کام ہی برش اپنے ساتھ میں رکھنا ہوتا ہے ، اب اگرچہ کیمرہ کے زیادہ رواج نے تحریر کی بجائے تصویر کی اہمیت بڑھا دی ہے لیکن میں بات انسان کی اس کے ساتھ جواں ہوتی عادت کا کررہا تھا، یعنی بچپن میں کاغذ اور تختی (اب کہاں؟) کے ساتھ ساتھ گھر اور سکولوں کی دیواروں پر مشق ستم کی عادت ہمیشہ ساتھ رہتی ہے اور اس کا ایک تازہ ترین تجربہ مجھے اسلام آباد میں اس وقت ہوا جب دو دن پہلے اتوار کو میں اپنی فیملی کے ساتھ ’’راول لیک وویو‘‘ گیا موسم از حد مہربان تھا۔
بادل چھائے ہوئے اور ہلکی ہلکی ہوا یہاں وہاں تیرتی پھر رہی تھی۔ گاہے گاہے بہت ہی خوشگوار سی پھوار چہروں کو بھگو دیتی تھی، ہم سب ساتھ ساتھ ہوتے بھی الگ تھے کہ سب چپ تھے، موسم ، جو بول رہا تھا اسے اپنے اپنے طور پر سب سن رہے تھے پھر لیک کے ساتھ ہی بسنت میلہ کا اہتمام تھا۔ ہم ٹکٹ خرید کر اندر چلے گئے ، جہاں الگ سا ماحول تھا، مستی بھرا پرجوش ماحول ، میوزک، پتنگوں بھرا آسمان، فوم کے قلعوں پر اترتے چڑھتے اور اچھلتے کودتے بچے کلائمنگ وال پر اپنی مہارت اور یکسوئی آزماتے نوجوان ایک ہنگامہ ایک مستی اور ساتھ ہی آرٹ گیلری سب کچھ سے لطف لیتے ہوئے جب آرٹ گیلری پہنچے تو وہاں کئی میٹر لمبا ایک کینوس دیوار پر لگایا گیا تھا جس کے ساتھ ہی چھوٹے بڑے کئی ایک برش ان گنت رنگین پنسلیں اور رنگوں کے ڈبے پڑے ہوئے تھے اور اس کینوس پروزیٹرز نے اپنے اپنے ٹیلنٹ آزمائے ہوئے تھے، کیا کیا تحریریں اور تصویریں تھیں پھر کیا تھا برش اور رنگ لے کر پشاوری بھی اپنا آپ اس ’’وال‘‘ پر انڈیلنے لگے، چند لمحوں کے لئے ادھر کا رخ میری فرمائش پر کرنے والے کئی گھنٹے انجوائے کرتے رہے میں انہیں خوش دیکھ کر خوش ہورہا تھا اور جو جو لکھا جارہا تھا اسے کیمرہ میں محفوظ کررہا تھا اور پھر میں نے زندگی میں پہلی بار برش پکڑ کر رنگ بنا کر اس وال پر ناصر کاظمی کا شعر لکھ دیا
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
ماخوز از:http://www.dailyaaj.com.pk/urdu/archives/67630
 
Top