امجد اسلام امجد میں ازل کی شاخ سے ٹوٹا ہوا

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
میں ازل کی شاخ سے ٹوٹا ہوا
پھر رہا ہوں آج تک بھٹکا ہوا

دیکھتا رہتا ہے مجھ کو رات دن
کوئی اپنے تخت پر بیٹھا ہوا

چاند تارے دور پیچھے رہ گئے
میں کہاں پر آگیا اڑتا ہوا

بند کھڑکی سے ہوا آتی رہی
ایک شیشہ تھا کہیں ٹوٹا ہوا

کھڑکیوں میں، کاغذوں میں، میزپر
سارے کمرے میں ہے وہ پھیلا ہوا

اپنے ماضی کا سمندر چھانیے
اک خزا نہ ہے یہاں ڈوبا ہوا

دوستوں نے کچھ سبق ایسے دئیے
اپنے سائے سے بھی ہو ں سہما ہوا

کس کی آہٹ آتے آتے رک گئی
کس نے میرا سانس ہے روکا ہوا؟​
 
Top