میٹھا سچ اور کڑوا جھوٹ

سعد الیاس

محفلین
نظم برائے تنقید

میٹھا سچ اور کڑوا جھوٹ۔۔

میں نہیں کر سکا
کیسے ممکن ہے یہ
تو وہ کر ڈالے گا
ایسا ممکن نہیں
تیرے بس میں نہیں

تم نہیں جانتے
شہر سے کافی دور
سینکڑوں میل دور
ساٹھ ستر گھروں پر محیط
چھوٹی سی بستی کے
بے عمارت علاقے کے اسکول میں
پیڑ کی چھاؤں میں
ٹاٹ پر
بیٹھ کر
نھنی آنکھوں سے دیکھے گئے خوابوں کی
حیثِیَت ہی کیا

ایسا ممکن نہیں
اپنی عادات کو
تم بدل پاؤ گے

تم ہمیشہ ہی ایسے رہو گے سدا
کیسے ممکن ہے تم خود پہ محنت کرو
اتنے بھاری بدن سے مشقت کرو
تم تو ایسے ہی موٹے رہو گے سدا

کیا کہا تم نے!! اب بولنا ہے تمہیں!
وہ بھی اسٹیج پر
مجمعِ عام میں
شکل دیکھو ذرا !!
توتلے!!!


لو بھئی!! یہ جناب
چاہتے ہیں کہ اب کاروباری بنیں
کوئی بزنس کریں
آئنہ لاؤں کیا !!!

پھر سے کہنا کیا کہہ رہے تھے ابھی!!
جم میں جاؤ گے تم!!!
ہا ہا ہا ہا مَسَل تو نہیں
پر مسائل بڑھیں گے ضرور

جھوٹ ہے جھوٹ ہے سب کا سب جھوٹ ہے
میں قسم کھاتا ہوں سب کا سب جھوٹ ہے
اس میں کچھ سچ نہیں، مطلقاً جھوٹ ہے
اور جھوٹ بھی ایسا کہ
جس کی کڑواہٹوں نے
ذہنوں میں
بے بہا طاقتوں کے سمندر کو آلودہ کیا
زنگ سے بھر دیا

اس کے برعکس سچ ہے، سنو!
مطلقاً میٹھا سچ
جس کی شیرینیاں
لاکھوں ذہنوں کے کڑوے سمندر
میٹھا کرنے کو کافی ہیں
کافی سے کافی تر

ہو جو امکان کی وادیوں سے پَرے
ایسا کچھ بھی نہیں، باخدا کچھ نہیں

بیسیوں دل کہ مرجھائے ہیں اس لیے
اَن گنت خواب محروم تعبیر سے
آخرش کس لیے؟
ایسا کچھ بھی نہیں جو کہ ممکن نہیں

شہر سے کافی دور
سینکڑوں میل دور
ساٹھ ستر گھروں پر محیط
چھوٹی سی بستی کے
اک طرف کھیت میں
خواب کی تتلیوں کے تعاقب میں تمّام دن
بھاگتے بھاگتے ہار جانے کے بعد
شام بوڑھے تنے کی کڑی چھال سے
سر کو گھٹنوں میں دے کر سہارا لیے
مضمحل محوِ غم بیٹھے ہوئے
لڑکے کے شانوں پر
ایک اُمّید کی تھپکی سے بے شمار
تازہ دنیاؤں کے
باب کھل سکتے ہیں
سب بدل سکتا ہے
ہم بدل سکتے ہیں

(سعد الیاس)
 
آخری تدوین:
Top