میر گل خان نصیر : بلوچستان کا ایک حریت پسندشاعر

سید زبیر

محفلین
عاطف بٹ ،@شمشاد،@محمد خلیل الرحمٰن ، رانا ، سیدہ شگفتہ ، فرحت کیانی ، حسیب نذیر گِل ، الف نظامی
میر گل خان نصیر : بلوچستان کا ایک حریت پسندشاعر
میر گل خان نصیر بلوچستان کی ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے آپ کو ملک الشعرا کا خطا ب دیا گیا تھا ۔آپ ایک مقبول سیاستدان ، ایک قوم پرست شاعر ، ایک تاریخ دان اور صحافی کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے میر گل خان نصیر ۱۴ مئی ۱۹۱۴ کو بلوچستان کے شہر نوشکی میں مینگل قبیلے کی ایک شاخ پائیند خیل کے میر حبیب خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ درجہ چہارم تک اپنے گاوں میں تعلیم حاصل کی پھر گورنمنٹ سنڈیمن ہائی سکول کوئٹہ چلے گئے میٹرک کے بعدآپ نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا ، بارہویں جماعت میں انگیٹھی سے ایک کوئلہ کا ذرہ آپ کی آنکھ میں چلا گیا جس کے باعث آپ واپس گھر آگئے ۔ اسلامیہ کالج لاہور ادبی و سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا اس دور میں بلوچستان مختلف حصوں میں بٹا ہوا تھا ایک حصہ چیف کمشنر کے ماتحت تھا ،باقی صوبہ ریاستوں میں تقسیم تھا جنہیں انگریز مقامی قبائلی رہنماوں کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے ۔ لاہور سے واپس آکر آپ نے "انجمن اتحاد بلوچستان" کی تنظیم میں شرکت اختیار کی یہ تنظیم۱۹۲۱میں قائم ہوئی تھی ۱۹۳۶ میں یہ تنظیم جب غیر فعال ہوگئی تو بلوچستان کے نوجوانوں نے "انجمن اسلامیہ ریاست قلات " کے نام سے تنظیم بنائی ۔ میر گل خان نصیر صدر اور عبدالرحیم خواجہ خیل اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد میر عطا اللہ مینگل کی وزارت عظمیٰ کے دوران آپ صوبائی وزیر تعلیم، صحت اور انفارمیشن کے صوبائی وزیر تھے آپ کے دور میں بولان میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔ اس دوران بلوچستان حکومت کے اکبر بگٹی سے اختلافات بہت بڑھ گئے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نیشنل عوامی پارٹی ( عدالتی حکم پر غدار قرار دئے جانے کے بعد موجودہ عوامی نیشنل پارٹی) سے جان چھڑانا چاہتے تھے انہوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خیبر پختون خو ا(اس وقت صوبہ سرحد کہلاتا تھا ) اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ختم کردی ان کے رہنماؤں کو جیل میں ڈالدیا اور دونوں صوبوں میں گورنر راج نافذ کردیا ۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں ملٹر ی آپریشن شروع کردیا ۔ جب پاک آرمی میر گل خان نصیریر کے ۷۲ سالہ بھائی میر لونگ خان کو گرفتار کرنے دشت گوران میں داخل ہوئی تو میر لونگ خان نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا پاک آرمی کے ساتھ مقابلہ ہوا پاک آرمی جدید ترین اسلحہ سے لیس تھی جبکہ میر لونگ خان کے ساتھ مینگل بیرل بندوقوں سے مسلح چند افراد تھے اس لڑائی میں میر لونگ خان جن بحق ہوئے جبکہ پاک ٓرمی کے ۲۹ جوان اللہ کو پیارے ہوئے ۔ میر گل خان نصیر ، ان کے چھوٹے بھائی کرنل (ر)سلطان محمود خان ، غوث بخش بزنجو ،خیر بخش مری اور بزن زنجو کو گرفتار کر لیا گیا ۔ میر گل خان نصیر نےایام اسیری میں بہت کلام لکھا ۔ یہ سب کچھ اکبر بگٹی مرحوم کے دور حکومت میں ہوا عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں خان عبدالولی خان ، سردار عطا اللہ مینگل ، نواب مری ، سید قصور گردیزی ، حبیب جالب ، غوث بخش بزنجو پر ٹریبونل کے سامنے غدار ی کا مقدمہ چلا ضیا الحق کے دور حکومت میں ان رہنماؤں کو رہائی ملی جس کے بعد غوث بخش بجنجو ، سردار عطا اللہ مینگل ، گل خان نصیر ، نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان میں پناہ لی جبکہ خیر بخش مری اور شیرو مری مستقل طور پر افغانستان منتقل ہوگئے​
۶ دسمبر ۱۹۸۳ کو یہ مرد آزاد مڈ ایسٹ ہسپتال کراچی میں کینسر کے موذی مرض کے ہاتھو ں چل بسا ۔​
میر گل خان نصیر کے فیض احمد فیض کے ستھ گہرے مراسم تھے ۔ میر گل خان نصیر نے اردو ، بلوچی ،انگریزی ، فارسی ،اور بروہی زبان میں شعر کہے ۔ ان کے شعروں سامراج کے خلاف ایک بغاوت تھی ۔ ان کے انتقالپر عطا شاد کا قطعہ اخبار میں شائع ہوا تھا​
عطا شاد نذر گل خان نصیر​
ڈھلی جو شام سفر آفتاب ختم ہوا
کتاب عشق کا ایک اور باب ختم ہوا
وفا کی راہ میں نقد جان ہی باقی تھا
سو اس حساب میں یہ بھی حساب ختم ہو
میر گل خان نصیر کا کلام شائع نہ ہوسکا کلام کے چندشہپارےجو مل سکے پیش خدمت ہیں​
کیسے مانوں کہ میرا دیس بھی آزاد ہوا
جب کہ ہے نشہ حکومت وہی ساز وہی
کیسے مانوں کہ یہ اجڑا چمن آباد ہوا
جب کہ ہے زاغ و زغن کا انداز وہی
کیسے مانوں کے فرنگی حکومت نہ رہی
جبکہ ہے جرگہ و جرمانہ و تعزیر وہی
کیسے مانوں کہ غلامی کی مصیبت نہ رہی
بیڑیاں پاوّںمیں اور ہاتھوں میں زنجیر وہی
کیسے مانوں کہ یہاں وقت ہے دلشادی کا
جبکہ کشکول لیے پھرتا ہے مجبور وہی
کیسے مانوں کہ لوگوں کی حکومت ہوگی
جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی
کیسے مانوں کہ یہاں ختم رعونت ہوگی
جبکہ فرعون بنے بیٹھے ہیں زردار وہی
کیسے مانوں کہ یہاں ہوگا شریعت کا نفاذ
جبکہ ساقی ہے وہی شاہد و میخانہ وہی
کیسے مانوں کہ بدل جا ئیں گے انکے انداز
جبکہ ہے نعرہ لا دینی و مستانہ وہی
کیسے میں قطرہ بے مایہ کو دریا کہہ دوں
کیسے میں خاک کے ذرے کو ثریا کہہ دوں
جرگہ
ہماری شومی قسمت کی ایک تصویر ہے جرگہ
بلوچوں کو مٹانے کی یہ اک تدبیر ہے جرگہ
اگر ٹھہریں تو سر پہ تیشہ سردار آتا ہے
اگر بھاگیں تو کیسے ؟ پاوّں میں زنجیر ہے جرگہ
یہ جرگہ دشمن آئین و قانون و شریعت ہے
ہمارے واسطے اک دوزخی تعزیر ہے جرگہ
اے خالق اکبر مجھے توفیق عطا کر
غفلت سے بلوچوں کو ذرا پھر سے جگا دوں
کھو بیٹھے ہیں مردان سلف کی وہ روایات
پھر قصے ماضی کے انہیں یاد دلا دوں
پھر چاکر و بی بکر کے نیزوں کی انی سے
اغیار کے سینوں میں کئی چھید بنادوں
گم کردہ راہ میں نہ کوئی ساتھ ہے رہبر
میں مشعل راہ بن کے انہیں راہ دکھادوں
سرداروں کی ہستی نے بلوچوں کو مٹایا
سرداروں کے سر کو میں سر دار چڑھا دوں
۱۰ نومبر ۱۹۳۶ کو لکھے گئے اشعار​
یہ مجمع جوانوں کا نا چیز ہے لیکن
تیرا ہو کر م میں انہیں کسریٰ سے لڑا دوں
کہتے ہیں نصیر خوف سے خاموش ہوا ہے
گفتار کی طاقت دے انہیں حال سنادوں
 

الف نظامی

لائبریرین
کیسے مانوں کہ میرا دیس بھی آزاد ہوا
جب کہ ہے نشہ حکومت وہی ساز وہی
کیسے مانوں کہ یہ اجڑا چمن آباد ہوا
جب کہ ہے زاغ و زغن کا انداز وہی

کیسے مانوں کے فرنگی حکومت نہ رہی
جبکہ ہے جرگہ و جرمانہ و تعزیر وہی
کیسے مانوں کہ غلامی کی مصیبت نہ رہی
بیڑیاں پاوّںمیں اور ہاتھوں میں زنجیر وہی

کیسے مانوں کہ یہاں وقت ہے دلشادی کا
جبکہ کشکول لیے پھرتا ہے مجبور وہی
کیسے مانوں کہ لوگوں کی حکومت ہوگی
جبکہ مسند پہ جمے بیٹھے ہیں سردار وہی

کیسے مانوں کہ یہاں ختم رعونت ہوگی
جبکہ فرعون بنے بیٹھے ہیں زردار وہی
کیسے مانوں کہ یہاں ہوگا شریعت کا نفاذ
جبکہ ساقی ہے وہی شاہد و میخانہ وہی

کیسے مانوں کہ بدل جا ئیں گے انکے انداز
جبکہ ہے نعرہ لا دینی و مستانہ وہی
کیسے میں قطرہ بے مایہ کو دریا کہہ دوں
کیسے میں خاک کے ذرے کو ثریا کہہ دوں
(میر گل خان نصیر)​
 
Top