میر انیس (سمجھا ہے کیا امام عراق حجاز کو)

سمجھا ہے کیا امام عراق و حجاز کو
گدی سے کھینچ لوں گا زبان دراز کو

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ معزز محبان اردو محفل آج میں میر ببر علی انیس کے ایک مرثیہ

آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی
ڈیوڑھی سے چل چکی ہے سواری دلیر کی
جاسوس کہہ رہے ہیں، نہیں راہ پھیر کی
غش آ گیا ہے شہہ کو یہ ہے وجہ دیر کی

خوش بو ہے دشت، باد بہاری قریب ہے
ہوشیار غافلو، کہ سواری قریب ہے​

جس میں یوں تو ١٥٩ بند اور ۴۷۷ اشعار ہیں لیکن ان میں سے چند بند آپ کے شوق مطالعہ کی نذر ہے۔ اور انشاءاللہ دیگر بند بھی ہم وقت فوقتا اسی لڑی میں داخل کرتے رہیں گے۔
والسلام
ادنی گدائے کوچہ آل محمد است
عامر گولڑوی سید عمران محمد عبدالرؤوف محمد وارث سیما علی سید عاطف علی احمد محمد وقار علی ذگر جاسمن وجی @
 

آتا ہے وہ جری جو ہزاروں میں فرد ہے
شیروں کا شیر عازم دشت نبرد ہے
دہشت سے آفتاب کا، چہرہ بھی زرد ہے
بڑھ کر پرے سے جو اسے روکے وہ مرد ہے

سربر کوئی ہوا نہیں اس خاندان سے
گھر میں انھیں کے اتری ہے تیغ آسمان سے

☆☆☆

مشہور ہے جہاں میں یہ صفدر وحید دہر
جبار کے غضب کا نمونہ ہے ان کا قہر
لڑنے میں آ گئی جو شجاعت کی ان کو لہر
لاکھوں سے ایک وار میں یہ چھین لیں گے نہر

فرزند ہیں علی سے شہ کائنات کے
لاشوں کے پل بندھیں گے کنارے فرات کے

☆☆☆

ہاں نور چشم فاتح خیبر قریب ہے
لو وارث کشندہ عنتر قریب ہے
لخت دل درندہ اژدر قریب ہے
جو تیغ کا دھنی ہے وہ صفدر قریب ہے

جوہر کبھی چھپے نہیں تیغ اصیل کے
کاٹے انھیں کی تیغ نے پر جبرئیل کے

☆☆☆

یکتائے روزگار ہے وہ شیر حق کا لال
اک اک جری یے شیر درندہ دم جدال
ان سے مقابلے کی بھلا یے کسے مجال
جرأت وہی ہے غیض وہی ہے وہی جلال

دکھلائیں گے چلن اسد کردگار کا
گھر گھاٹ، ان کی تیغ میں ہے ذوالفقار کا

☆☆☆

اللہ رے آمد آمد عباس صف شکن
لرزاں تھے کوہ ہلتا تھا دل کانپتا تھا تن
جنگل کے شیر بن گئے تھے خوف سے ہرن
اک شور تھا کہ آج پڑے گا غضب کا رن

یہ شیر کم نہیں اسد قلعہ گیر سے
گویا مقابلہ ہے جناب امیر سے

☆☆☆

اعجاز لب میں، چشم میں شحر حلال ہے
پتلی نہیں ہے چہرہ یوسف کا خال ہے
تعریف کیا کریں کہ دہن بے مثال ہے
تقسیم جزو لا یتجزی محال ہے

ٹھرا لیا ہے نقطہ فرضی دہن نہیں
اسرار کردگار میں جائے سخن نہیں

☆☆☆

دنیا ہو اک طرف تو یہ کچھ جانتے نہیں
اللہ و پنجتن کے سوا مانتے نہیں


رہتے ہیں سب جہاں کے زبردست، زیردست
لشکر تباہ کر دیئے فوجوں کو دی شکست
دیکھا ہے شیر حق کی لڑائی کا بندوبست
آنکھ ان کی حق نما ہے نظر ان کی حق پرست

روح الامیں پروں کو بچھاتے ہیں فرش پر
سر ان کے خاک پر ہیں نماز ان کی عرش پر

☆☆☆

یہ شیر نیستان ولایت کے ببر ہیں
بیشے میں شیر حق کے پلے وہ ہزبر ہیں
چپ جانیو نہ ان کو یہ مختار صبر ہیں
کڑکیں اگر تو برق ہیں گرجیں تو ابر ہیں

رب علا کا قہر انھیں کا جلال ہے
برق ان کی تیغ ہے تو گھٹا ان کی ڈھال ہے​
 
نعرہ یہ تھا کہ ہم در دریائے نور ہیں
دنیا کے جتنے عیب ہیں سب ہم سے دور ہیں
خیبر کشا کے قلب و جگر کے سرور ہیں
جرار ہیں، سخی ہیں، ولی ہیں، غیور ہیں

اپنا چلن کھلا ہوا سب عاقلوں پہ ہے
اب تک ہماری ضرب کا سکہ دلوں پہ ہے

☆☆☆

جب معرکے میں جم گئے ہیں پاؤں گاڑ کے
دم میں دم اکھاڑ دیے ہیں، پہاڑ کے
روکی ہے تیغ، کفر کی بستی اجاڑ کے
پٹکا ہے گھر سے حق کے بتوں کو اکھاڑ کے

پڑھ کر درود فوج ملک، مدح خواں ہوئی
جب ہم گئے تو کعبے کے اندر اذاں ہوئی

☆☆☆

در پے ہمیں رہے، رہ حق کی تلاش کے
ٹکڑے تلک جلا دیے کافر کی لاش کے
چھوڑا نہ سر بدن پہ کسی بدمعاش کے
کاٹے ہمیں نے ہاتھ ہر اک بت تراش کے

ناقوس کو اٹھا کر زمیں پر پٹک دیا
آتش کدوں پہ تیغ کا پانی چھڑک دیا

☆☆☆

جنگ آزما ہیں، صف شکن و قلعہ گیر ہیں
صولت میں دبدبے میں عدیم النظیر ہیں
دنیا کے بادشاہ ہیں، گردوں سریر ہیں
اس اوج پر حسین کے در کے فقیر ہیں

رتبے پہ فخر ہے، نہ شجاعت پہ ناز ہے
گر ہے تو بس غلامی حضرت پہ ناز ہے

☆☆☆

کیا کیا لڑے ہیں خیبر و بدر و تبوک میں
یہ ہاتھ پیاس میں نہ رکے ہیں نہ بھوک میں
شہرہ ہے اپنی جودوسخا کا ملوک میں
حاتم سے بھی سخی ہیں سوا ہم سلوک میں

بگڑے ہیں جب تو خون کے دریا بہائے ہیں
سر دے دیا ہے بات پہ جس وقت آئے ہیں

☆☆☆

تب شمر نے کہا کہ فصاحت سے کیا حصول
بیعت انھیں، تو صلح ہمیں بھی نہیں قبول
غازی پکارا، او نخس و مرتد و جہول
لیجو نہ منہ سے نام جگر گوشہ رسول

سمجھا ہے کیا امام عراق و حجاز کو
گدی سے کھینچ لوں گا زبان دراز کو


☆☆☆

تو کیا ہے اور کیا ہے ترا وہ، امیر شام
کرتے ہیں بادشاہ کہیں بیعت غلام
تو بھی نمک حرام ہے وہ بھی نمک حرام
او بے ادب یزید کجا اور کجا امام

دوزخ سے دور رہتے ہیں ساکن بہشت کے
کعبہ کبھی جھکا نہیں آگے کنشت کے


☆☆☆

یہ کہہ کے لی دلیر نے تلوار میان سے
مسکن چھٹا ہمائے سعادت نشان سے
نکلی جو عندلیب ظفر آشیان سے
چمکے شرارے پھول جھڑے آسمان سے

دکھلائی شکل قہر خدائے جلیل نے
آنکھوں پہ ڈر کے رکھ لیے پر جبرئیل نے​
 
Top