میرے ہر غم، ہر درد کی دوا ہے ماں!

جاسم محمد

محفلین
میرے ہر غم، ہر درد کی دوا ہے ماں!
1664678-mothersday-1557634261-932-640x480.jpg

آج کی مہذب دنیا میں ماں کا عالمی دن تو منایا جارہا ہے لیکن افسوس! حقیقت حال ہمارے دعوؤں کے برعکس ہے۔ فوٹو: فائل

ماں! سماعتوں میں نقرئی گھنٹیاں بکھیرتا ہوا لفظ ہے! صاف، شفّاف، پاکیزہ اور منزّہ و مطہّر۔ خلوص کا بہتا ہوا جھرنا اور محبت و الفت، ہم دردی اور شفقت کی ہر دم رواں بہتی ہوئی، پُرسکون ندی ہے ماں! ایک عظیم نعمت ہے ماں، اس کائنات کی سب سے قیمتی متاع اور عظیم سرمایہ ہے ماں۔ ماں ہی حاصل زندگی ہے اور ہے ہی کیا! ماں ایک چھتر چھایا ہے، گہری اور سُکون میں ڈوبی ہوئی اک سرسبز و شاداب وادی ہے ماں!

ہر سماج، قوم، قبیلے اور مذہب میں والدین کو بنیادی اور کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ماں کا مرتبہ دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے۔ اسے کسی بھی گواہی کی ضرورت نہیں ہے کہ سچائی، اخلاص، ایثار کا مجسم ہے ماں! ماں کا چہرہ دنیا کا سب سے حسین چہرہ ہے کہ جسے دیکھنا خالق کائنات زیارت کعبہ کے مترادف قرار دیتا ہے۔

باعثِ تخلیقِ کائنات، صادق و امین کائنات رحمت اللعالمینؐ نے فرمایا: ’’ جنّت تو ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ رابعہ بصریؒ نے ماں سے اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا: ’’جب میں دنیا کے ہنگاموں سے تھک جاتی ہوں، اپنے اندر کے شور سے ڈر جاتی ہوں تو پھر میں اﷲ کے آگے جُھک جاتی ہوں یا پھر اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کے جی بھر کے رو لیتی ہوں۔‘‘

شیخ سعدیؒ نے کہا تھا: ’’محبت کی ترجمانی کرنے والا اگر کوئی عمل ہے تو وہ صرف ماں ہے۔‘‘ حکیم الامت اقبال نے بتایا: ’’سخت سے سخت دل کو ماں کی پُرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے۔‘‘ مسدس حالی جیسی شہرہ آفاق کتاب کے تخلیق کار الطاف حسین حالی نے کہا تھا: ’’ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔‘‘ جان ملٹن نے کہا: ’’آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے۔ ‘‘ شیلے کا کہنا ہے : ’’دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں۔‘‘ اور بُوعلی سینا نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا: اپنی زندگی میں محبّت کی سب سے اعلی مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ، تب میری ماں نے کہا تھا مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔

ہم سب ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو عالمی سطح پر ’’مدر ڈے‘‘ منانے کا اہتمام کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی ہر دن، ہر لمحہ ماں کے نام ہونا چاہیے۔ لیکن چلیے غنیمت ہے یہ بھی کہ یہ دن تو مناتے ہیں۔ جس میں رسمی طور پر ہی سہی ماں کی عظمت کو اجاگر کرنے اور اس کی بے ریا خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی اپنی سی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خود غرضی کے اس سیاہ دور میں شفقت، ایثار، قربانی، اخلاص، مروت و وفا اور محبت کا تنہا مجسم صرف ماں ہے، صرف ماں۔ اور ماں تو ہر دور میں چاہے وہ کتنا بھی پرآشوب کیوں نہ رہا ہو، بس ماں ہی رہی ہے۔ ان تمام خوبیوں کی تنہا وارث اور اکلوتی مثال۔ اس کی ممتا کا کوئی متبادل نہیں، ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہی نہیں، منفرد اور یکتا بھی ہے۔ ماں کی حیثیت مسلّم رہی ہے اور ہر دور میں ثابت اور تسلیم شدہ۔ ماں چاہے کوئی بھی ہو، کیسی بھی ہو، کسی خطے سے تعلق رکھتی ہو، کچھ بھی کرتی ہو ممتا عظیم ترین جذبے سے سرشار ہوتی ہے جو اسے قدرت کی جانب سے ودیعت کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی شخص سارے دعوے کرسکتا ہے، سوائے اس کے کہ اس نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے، ایسا ممکن ہی نہیں ناممکن ہے۔

ایک بار ایک صحابیؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یارسول اﷲ ﷺ میں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق ادا کردیا ؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، تُو نے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا۔

حضرت ابُوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ خیر خواہی کروں ؟ ’’ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ تب آپؐ نے فرمایا: تیرا باپ۔‘‘

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اﷲ سے عرض کیا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: شوہر کا۔ میں نے عرض کیا: اور مر د پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: اس کی ماںکا۔

ہر اولاد فطری طور پر اپنی ماں پر بھروسا کرتی ہے۔ اس لیے کہ رب تعالیٰ نے ہر ایک انسان کے دل میں ماں کی محبت و عقیدت ودیعت کردی ہے۔ رب کائنات نے ہر ماں کو ممتا کے جذبے سے سرشار کیا ہے۔ اس رحمت خداوندی کا مظاہرہ آپ انسانوں میں ہی نہیں چرند پرند اور درندوں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں ایسا کوئی آلہ ایجاد ہی نہیں ہوا، نہ ہوسکتا ہے جس سے ماں کے ایثار و قربانی اور پیار، شفقت و محبت کو ناپا یا تولا جاسکے۔

ماں کے بلندترین مقام کو آشکار کرنے کے لیے عہد نبویؐ کا یہ واقعہ ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ایک شخص قریب المرگ تھا مگر نہ تو اُس کی زبان سے کلمہ جاری ہوتا تھا اور نہ ہی اسے موت آتی تھی۔ وہ نہایت تکلیف میں تھا۔ صحابہ کرامؓ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری کیفیت بتائی۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: کیا اس شخص کی ماں زندہ ہے؟ آپؐ کو بتایا گیا جی زندہ ہے مگر اس سے ناراض ہے۔ تب آپؐ نے فرمایا: اس کی ماں سے کہا جائے کہ وہ اسے معاف کردے۔ جب اس کی ماں نے اسے معاف کرنے سے انکار کردیا تو نبی کریمؐ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کو جلا دیا جائے۔ جب اُس کی ماں نے یہ حالت دیکھی تو فوراً اسے معاف کردیا۔ ماں کے معاف کرنے کے بعد اس کی مشکل آسان ہوئی اور اُس کی زبان پر کلمہ جاری ہوا اور وہ واصل بہ حق ہوگیا۔

آج کی مہذب دنیا میں ماں کا عالمی دن تو منایا جارہا ہے لیکن افسوس! حقیقت حال ہمارے دعوؤں کے برعکس ہے۔ ہم تو اسلام کے پیروکار ہیں جس نے ہمیں ہر حال میں ماں کی عظمت بتائی ہے اور نہ صرف بتائی ہے بلکہ اسے ہر حال میں مقدّم بھی کیا ہے۔ لیکن! کیا ہمارے سماج میں بھی اب ماں اسی مرتبے پر فائز ہے جس کا ہم دعوی کرتے ہیں؟ یہ تلخ سوال ہمارے سامنے ہے اور ہمیں اس کا جواب تلاش کرنا ہے ۔ اگر ہم نے اس کا جواب تلاش کرتے ہوئے ماں کے مرتبے کو پہچان لیا تو سمجھیے آج کے دن کی غرض و غایت پوری ہوئی، اور اگر نہیں تو سمجھیے، بدنصیبی کہیے کہ ہم نے صرف فیشن میں یہ دن منالیا جس کا حاصل حصول کچھ نہیں سوائے اپنی ذاتی تسکین اور دکھاوے کے۔

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں

جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں!
 
Top