سید عاطف علی
لائبریرین
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
غزل
ماہتابی ہیں مرے رنج و محن پانی میں
اشکِ غم ہیں کہ ستاروں کا چمن پانی میں
جن خلیجوں سے گذرتی ہے ضیا دیتی ہے
آپ کے عکس کی ہلکی سی کرن پانی میں
موسمِ گُل میں یہی گل ہیں یہی تارے ہیں
اشکِ پیہم ہیں کہ پانی کی کرن پانی میں
ناخدا حق و اناالحق کی وضاحت کے لیے
بادبانوں کو کہوں دار و رسن پانی میں
ایسی برسات کہاں ایسے کہاں قلزم و یم
کِس نے دیکھا ہے ضیاؔ سیم بدن پانی میں
ماہتابی ہیں مرے رنج و محن پانی میں
اشکِ غم ہیں کہ ستاروں کا چمن پانی میں
جن خلیجوں سے گذرتی ہے ضیا دیتی ہے
آپ کے عکس کی ہلکی سی کرن پانی میں
موسمِ گُل میں یہی گل ہیں یہی تارے ہیں
اشکِ پیہم ہیں کہ پانی کی کرن پانی میں
ناخدا حق و اناالحق کی وضاحت کے لیے
بادبانوں کو کہوں دار و رسن پانی میں
ایسی برسات کہاں ایسے کہاں قلزم و یم
کِس نے دیکھا ہے ضیاؔ سیم بدن پانی میں
مدیر کی آخری تدوین:
۔شعر ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ المعنی فی بطن الشاعر۔بہر حال ایک رائے آپ کے لیے پیش کر دیتا ہوں ۔ اس شعر میں شاعر نے حق اور اناالحق کیکے واقعے کا خفیف سا تذکرہ کر کے اس سے متصل تصوف کے دقیق مباحث کی گہرائی اور نزاکت کی طرف فقط اشارہ کر کے سامع یا قاری کی فکر کو ایک جنبش دی ہے جو قاری کے فکر کو کسی نقطہ نظر کی طرف مائل کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے۔یہ بھی شعرا ککا ایک معروف اسلوب ہے۔ اسی لیے ناخدا کی بجائے لطیف تخاطب کو بادبانوں کی طرف موڑدیا گیا ہے۔امید ہے یہ رائے شاعر( یعنی میرے والد صاحب )کے مافی الضمیر کے قریب اور موافق ہوگی۔ ۔۔واللہ اعلم