میرے مربی ومحسن

دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب ان سے کسی قسم کا تعلق ہوجاتا ہے تو وہ زندگی میں بہت ہی گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں، بلکہ زندگی میں انقلاب برپا کرجاتے ہیں۔
ایسی ہی شخصیات میں سے ایک شخصیت بندہ کے استاذِ محترم حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ خلیفہ مجاز حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی وشیخ الحدیث جامعہ معہد الفقیر الاسلامی العالمی جھنگ کی ہے۔
استاذِ محترم کی زیارت اس وقت ہوئی تھی جب والدِ محترم درسِ نظامی کے لیے بندہ کو لے کر دارالعلوم جھنگ میں پہنچے، پہلی ہی نظر میں حضرت کا خوبصورت نورانی چہرہ آنکھوں میں سما گیا بس پھر کیا تھا پھر تو بندہ حضرت ہی کا ہوکر رہ گیا۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ جو بندہ بھی حضرت سے ایک بار ملتا ہے دل دے بیٹھتا ہے۔
حضرت کی شخصیت انتہائی باوقار اور دل کش ہے۔ چہرہ خوب صورت اور بارعب، سینہ چوڑا، اعضاء متوازن، پیشانی کشادہ، قد وقامت دراز بلندی مائل، داڑھی سینہ بھر اور گھنی، رنگت انتہائی خوبصورت اور سفیدی مائل ہے۔
حضرت کا اندازِ تدریس، اندازِ تربیت، اندازِ خطاب دل کو موہ لینے والا ہے، جب سبق پڑھاتے ہیں تو سبق پڑھنے والوں کی حالت یہ ہوتی ہے اور اپنے آپ کو ایسے محسوس کرتے ہیں کہ گویا خود بھی اسی منظر میں موجود ہیں۔ خصوصا کتاب المغازی بخاری شریف تو اس انداز سے پڑھاتے ہیں کہ تمام واقعات آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتے ہیں۔
حضرت کا مطالعہ انتہائی گہرا ہوتا ہے، بیان جامع ہوتا ہے، موضوع کے تمام پہلوئوں کو بہت ہی منظم انداز میں واضح فرماتے ہیں۔

حضرت کی دعائیں ایسی رقت آمیز ہوتی ہیں کہ دل پسیج جاتا ہے اور یقین سا ہوجاتا ہے کہ یہ دعائیں اللہ رب العزت کے ہاں ضرور قبول ہوں گی۔
بندہ جب طالب علم تھا اس وقت حضرت نے بندہ کی بہت ہی سپورٹ فرمائی، بہت سہارا دیا، طالب علمی کے دور میں بہت ہی شفقت فرمائی، انہی شفقتوں کی وجہ سے ہی تو آج کسی حد تک اس میدان میں بندہ موجود ہے ، تعلیم کے دوران حضرت ہی کی وجہ سے مجھے ایک چھوٹی سے جاب بھی مل گئی تھی جس کی وجہ سے جیب خرچ نکل آتی تھی۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک پروگرام میں شریک تھے تو کھانے سے پہلے بندہ نے کوشش کی کہ حضرت کے ہاتھ دھلادوں اور میزبان نے بھی چاہا کہ میں کسی خادم سے کہہ دیتا ہوں کہ وہ حضرت کے ہاتھ دھلا ئے گا لیکن حضرت نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اسے ہی ہاتھ دھلانے دو اس نے میری بہت خدمت کی ہے۔ اس بات پر بندہ کو اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔
عام طور پر دیکھتے ہیں کہ پیر حضرات جب خود کسی کام کھانا وغیرہ سے فارغ ہوجاتے ہیں تو کسی کی پرواہ نہیں کرتے کہ سب فارغ ہوگئے ہیں یا کچھ باقی بھی ہیں، لیکن ہمارے اس معاملے میں بہت ہی منفرد ہیں: ایک مرتبہ کسی سفر میں تشریف لے گئے اور وہاں کافی وقت لگ گیا پھر جب وہاں پروگرام سے فارغ ہوگئے تو میزبان نے کھانا بنایا ہوا تھا جب حضرت کھانے سے فارغ ہوئے تو خدام ابھی کھانا رہے تھے ان کے فارغ ہونے تک حضرت نے چائے پی لی حالانکہ واپس جلد جانا تھا لیکن جب تک آخری خادم کھانے اور چائے سے فارغ نہیں ہوئے حضرت نے ایک بار بھی نہیں فرمایا کہ جلدی کرو جلدی جانا ہے اور جب تک سب نے چائے وغیرہ نہیں پی لی حضرت انتظار فرماتے رہے اور پھر جب سب فارغ ہوگئے تب حضرت وہاں سے اٹھے۔
سخاوت تو اللہ نے بہت ہی زیادہ عطا فرمائی ہے۔ کئی دفعہ اپنی جیب سے اپنے شاگردوں کی دعوت کی، کبھی دودھ سوڈا، کبھی سویٹ ڈش کبھی اپنی جیب سے طالب علموں کو شہد کے ساتھ ناشتہ بھی کروادیا۔
اللہ تعالیٰ حضرت کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم ودائم فرمائے۔
آمین ثم آمین
 
Top