میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر

میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطین آباد...قلم کمان ۔۔۔۔۔حامد میر

اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ایک ایسی طاقت ہے جو کمزور ولاچار اور بیمار انسانوں کو ہر طرح کی مشکل سے نکال سکتی ہے۔19 اپریل کو کراچی میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد جب میں آغا خان ہاسپٹل کے ایک بستر پر پڑا تھا تو کئی دن تک یہ محسوس ہوتا تھا کہ دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونا بہت مشکل ہوگا۔ کندھے، کمر کے نچلے حصے، پیٹ اور دونوں ٹانگوں میں لگنے والی گولیوں کے باعث بستر پر بیٹھنا بھی بہت مشکل تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا، بہت سے لوگوں کی دعائیں اسپتال رنگ لائیں، میں اپنی ٹانگوں پر دوبارہ کھڑا ہوگیا لیکن دو گولیاں جسم میں موجود تھیں اور بائیں ٹانگ میں درد سے نجات نہ ملتی تھی۔ڈھائی ماہ تک پاکستان میں علاج کے بعد جسم میں موجود دو گولیوں کونکلوانے اور بائیں ٹانگ کے درد کی دوا تلاش کرنے میں لندن پہنچا۔ کرامویل اسپتال لندن میں طبی معائنے کے بعد ڈاکٹر مائیکل نے مجھے سختی سے تاکید کی کہ میں اپنے جسم میں موجود دو گولیوں کو نکلوانے کا خیال فی الحال دل سے نکال دوں کیونکہ اگر گولیاں نکلوانے کیلئے آپریشن کرایا گیا تو بائیں ٹانگ کا علاج معطل کرنا پڑے گا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اگر جسم میں موجود گولیاں تکلیف نہیں دے رہیں تو اس لوہے کو جسم سے نکلوانے کی بجائے اپنی ٹانگوں کے علاج پر توجہ دو اور سہارے کے بغیر زیادہ سےزیادہ پیدل چلنے کی کوشش کرو۔ ڈاکٹر مائیکل کے مشورے کے بعد میں برمنگھم کے کوئین ایلزبتھ ہاسپٹل سے گولیاں نکلوانے کا ارادہ ملتوی کرچکا تھا۔ میں لنگڑاتا ہوا اسپتال کے قریب ہی اپنے ہوٹل میں پہنچا۔ ایکسرے اور طبی رپورٹیں بیگ میں رکھیں اور کین سنگٹن ہائی سٹریٹ پر پیدل نکل کھڑا ہوا۔ اس علاقے میں اسرائیل کے سفارتخانے کے باہر مجھے ایک بڑا ہجوم نظر آیا جو آزادی فلسطین کے نعرے لگا رہا تھا۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی لیکن فلسطین کے نعرے مجھے اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ مظاہرین کے پاس چھتریاں تھیں میرے پاس کوئی چھتری نہ تھی لیکن میں لنگڑاتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا۔ لندن میں ہزاروں گوروں، کالوں، عربوں اور عجمیوں کو فلسطین کے نعرے لگاتے دیکھ کر میں اپنی تکلیف بھول چکا تھا۔ اس مظاہرے کا اہتمام کسی مذہبی تنظیم نے نہیں بلکہ بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کے کیا تھا جن کی اکثریت مقامی تھی۔ کیمرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کا ایک گروپ بھی مظاہرے میں شریک تھا۔ یہ طلبہ مجھے پہچان کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگئے۔ ایک طالبعلم نے بڑے معصومانہ انداز میں مجھے پوچھا کہ کیا کسی عرب ملک میں اسرائیل کے خلاف اتنے مظاہرین کو سڑکوں پر آنے کی اجازت ملے گی؟
مجھے یہ معصوم سا سوال ایک بھاری بھر کم پتھر بن کر لگا۔ ایک لمحے کے لئے میرا سر گھوم گیا پھر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا کہ کوئی جمہوریت کو لاکھ برا کہے لیکن لندن میں فلسطینیوں کے حق میں اتنا بڑا مظاہرہ صرف اور صرف جمہوریت کی وجہ سے ممکن ہے اور کئی عرب ممالک میں ایسا مظاہرہ واقعی بہت مشکل ہے کیونکہ وہاں جمہوریت نہیں ہے۔ ایک اور طالبعلم نے کہا کہ آج کل پاکستان میں تو جمہوریت ہے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے سردی اور گرمی کی پرواہ کئے بغیر جلسے جلوسوں کا اہتمام کرتی ہیں لیکن فلسطینیوں کے حق میں کوئی بڑا جلوس کیوں نہیں نکلتا؟ یہ سوال سن کر مجھے کچھ سال پہلے غزہ کی الازہر یونیورسٹی میں طلبہ و اساتذہ کے ساتھ ہونے والی ایک بحث یاد آگئی۔2009ء میں اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کئے تو میں مصر کے راستے سے مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوا۔ ایک دن غزہ کی الازہر یونیورسٹی میں جواہر لال نہرو لائبریری کا بورڈ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ میں نے یونیورسٹی کے اساتذہ سے کہا کہ 1940ء میں قیام پاکستان کے حق میں پہلی قرارداد لاہور میں منظور ہوئی تھی۔ لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس22 تا 24 مارچ منعقد ہوا۔ پہلے دن خطبہ صدارت میں قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کی اور آخری دن جو چار قرار دادیں منظور ہوئیں ان میں سے ایک مسلمانوں کے علیحدہ وطن اور دوسری فلسطین عربوں کے حق میں تھی پھر آپ کی یونیورسٹی میں کہیں محمد علی جناحؒ یا پاکستان کا نام کیوں نظر نہیں آتا؟ اساتذہ نے حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا کہ انہیں ان باتوں کا قطعاً کوئی علم نہیں وہ تو صرف پاکستان میں دو لوگوں کو جانتے ہیں ایک جنرل ضیاء الحق اور دوسرا ذوالفقار علی بھٹو۔ میں نے پوچھا کہ آپ ان دونوں کو کس حوالے سے جانتے ہیں؟ ایک استاد نے کہا کہ 1970ء میں وہ اردن کے ا یک فلسطین مہاجر کیمپ کےا سکول میں پڑھتا تھا۔ اس زمانے میں اردن کی فوج نے فلسطین مہاجرین کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا تھا جس کی قیادت مبینہ طور پر پاکستانی فوج کے بریگیڈیئر ضیاء الحق نے کی تھی۔ اس آپریشن میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے تھے۔ جب یہی ضیاء الحق پاکستان کا صدر بناتو ہمیں سخت افسوس ہوا تھا۔ استاد نے کہا کہ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کھل کر عربوں کی حمایت کی، جب بھٹو کو ضیاء دور میں پھانسی دی گئی تو ہمیں بہت ا فسوس ہوا۔ ایک اور استاد نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فلسطینی طلبہ کو پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کی اجازت ملی اور خود اس نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی لیکن ضیاء دور میں فلسطینیوں پر پاکستان میں تعلیم کے دروازے بند ہوگئے لہٰذا پی ایل او بھارت کے قریب ہوگئی۔ میں نے ان اساتذہ اور طلبہ کو پی ایل او کے بانی یاسر عرفات کے ساتھ ایک ملاقات کا قصہ بھی سنایا۔ 1994ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ہمراہ مجھے جینوا میں یاسر عرفات کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ اس ملاقات میں یاسر عرفات نے محترمہ بینظیر بھٹو سے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ان کے مذاکرات دبائو کا نتیجہ ہیں۔ یاسر عرفات نے کہا کہ کئی عرب ممالک کی حکومتیں ہماری مدد نہیں کرتیں ہمیں اردن، لبنان اور مراکش سے مار مار کر نکال دیا گیا اور مذاکرات پر مجبور کیا گیا، ہماری درخواست ہے کہ پاکستان کھل کر ہماری مدد کرے اور اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھانے سے گریز کرے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا کہ اگر پی ایل او کے اسرائیل سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں رابطے قائم ہونے میں کیا برائی ہے؟ یاسر عرفات نے کہا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے فلسطینی محکوم ہیں اگر پاکستان جیسا مضبوط اسلامی ملک اسرائیل سے دور رہے تو ہم محکوموں کی سیاسی پوزیشن مضبوط رہے گی، ہم اسرائیل سے کچھ نہ کچھ منوالیں گےاور آپ کا احسان نہیں بھولیں گے۔بھٹو کی بیٹی نے یاسر عرفات کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور اسرائیل سے دور رہنے کا وعدہ کیا۔ یاسر عرفات کی وفات کے بعد سے فلسطینیوں کو قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین اسرائیلی حملے میں شہید ہوچکے ہیں۔ پی ایل او اور حماس کے اختلافات دور کرانے والا کوئی نہیں۔ آج اسرائیل کی طرف سے غزہ میں ہونے والے ظلم و ستم پر لندن میں تو بڑے مظاہرے ہورہے ہیں لیکن قاہرہ اور جدہ کو بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کو چاہئے کہ عالمی برادری کو فلسطینیوں کے حق میں متحرک کرے کیونکہ فلسطین کی آزادی بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے وژن کا حصہ تھی۔ لندن کے مظاہرے میں ایک انگریز خاتون نے فلسطینی شاعر محمود درویش کے کچھ عربی اشعار کا انگریزی ترجمہ اپنے بینر پر لکھا ہوا تھا۔ محمود درویش نے کہا تھا کہ کاش میرے اشعار محنت کش کے ہاتھ میں ہتھوڑا اور مجاہد کی مٹھی میں بم بن جائیں جس قوم کے پاس محمود درویش جیسا شاعر ہو اس قوم کی آئندہ کئی نسلیں اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرتی رہیں گی ۔ اسی محمود درویش سے متاثر ہو کر فیض احمد فیض صاحب نے کہا تھا؎
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطین کا علم
تیرے اعدانے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخمیوں نے کئے کتنے فلسطین آباد
بارش تیز ہوچکی تھی ، میں نے پاکستانی طلبہ سے اجازت لی اور تیزی سے اپنے ہوٹل کی طرف چلنے لگا۔ اسی تیز رفتاری میں مجھے احساس ہوا کہ میں لنگڑائے بغیر چل رہا ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ میری جسمانی تکلیف کم ہوچکی تھی لیکن فلسطینیوں کے زخموں کے باعث مجھے اپنی روحانی تکلیف میں اضافہ محسوس ہورہا تھا۔ آئیے ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کی تکالیف کا جلد خاتمہ ہوجائے (آمین)۔
 
Top