میرے دل اور دماغ کی آپس میں سرد جنگ

آج کل میں بہت ہی عجیب سی کیفیت سے گزر رہا ہوں میرے دل و دماغ ہر وقت آپس میں الجھے رہتے ہیں پتا نہیں دل اور دماغ کی اس سرد جنگ میں میرا کیا بنے گا
دل کہتا ہے مجھے کسی سے بہت محبت ہے
دماغ کہتا ہے محبت کچھ بھی نہیں ہوتی
دل کہتا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے اس کو ہو یا نہ ہو
دماغ کہتاہے پاگل نہ بنو اس طرح محبت نہیں ہوتی بلکہ محبت ہوتی ہی نہیں ہے اور پتا نہیں تم نے اس کے بارے میں کیا کیا سوچا ہے پر کیا پتا وہ کیسی ہو۔
دل کہتاہے وہ جیسی بھی ہو ۔ بہت اچھی ہے سچی ہے سادہ سی معصوم سی
دماغ کہتاہے وہ تم سے پیار نہیں کرتی چھوڑ دو اس کا پیچھا
دل کہتاہے وہ کرے یا نہ کرے میں تو کرتا ہوں
دماغ کہتا ہے اگر وہ کسی اور کی ہوگئی تو کیسے جئیے گا
دل کہتا ہے میں اس کی خوشی میں خوش ہوں
دماغ کہتا ہے اس کے بنا جی کے دیکھاو جیو گے بھی تو موت سے بدتر زندگی
دل کہتا ہے جینے نہ ہوا تو موت کو گلے لگانا کون سا مشکل کام ہے
دماغ کہتا ہے تو پاگل ہے
دل کہتاہے کہ ہاں میں پاگل ہوں
اور جب یہاں آکے میرے دل و دماغ دونوں کسی ایک نقطہ پہ متفق ہوتے ہیں تو میں بھی کہتا ہوں چلو شکر کسی جگہ تو کسی بات پہ دل و دماغ میں اتفاق تو ہوا اب جب دونوں اس بات پہ متفق ہیں تو میں بھی مان لیتا ہوں میں پاگل ہوں۔
( محمد یاسر علی کی خود کلامی سے )
 
Top