میرے اوپر جو بیتی اس کا تعلق اس عدالتی کاروائی سے ہے۔ مطیع اللہ جان کا چیف جسٹس سے مکالمہ

میرے پر جو بیتی اس کا تعلق اس عدالتی کاروائی سے ہے۔ مطیع اللہ جان کا چیف جسٹس سے مکالمہ
Asad-24x24.jpg
اسد علی طور

5 گھنٹے ago
Matiullah-Jan-Asad-Ali-Toor.jpg



آج 12 بج کر 40 منٹ پر صحافی دوست ناصر طفیل کو جیو نیوز کے دفتر سے ساتھ لیتے سپریم کورٹ پہنچے تو پارکنگ میں صحافی دوست محسن اعجاز سے ملاقات ہو گئی جو مطیع اللہ جان کے بڑے بیٹے کو ساتھ لے کر اندر جا رہا تھا۔ کمرہ عدالت کے باہر مطیع اللہ جان صحافیوں اور وکلا کے ایک بڑے جھمگٹے میں کھڑے تھے۔ ایک لمحے کے لئے کورونا ذہن میں آیا لیکن پھر ضبط نہیں ہوا اور سیدھا جاکر مطیع بھائی کے گلے لگ گیا۔

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ صحافت میں مطیع اللہ جان میرے استاد بھی ہیں اور ان کے ماتحت کام کرنا ہی میرے کرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد کوئی سفارش اور نہ ہی کوئی خاندان کا بڑا میڈیا سے تعلق رکھتا تھا لیکن ماں کی دعاؤں کے صدقے اللہ میاں نے کبھی فل سٹاپ نہیں لگنے دیا۔ اس کے بعد کاشف عباسی، فہد حسین، ثنا بچہ، مبشر زیدی، عبدالشکور خان، وجاہت علی، مشکور علی، رضا رومی اور عنبر شمسی نے مجھے سکھایا اور اس مقام تک پہنچنے میں کردار ادا کیا۔

بہرحال مطیع بھائی اپنے سب سے بڑے بیٹے، بیٹی، بھائی اور بھتیجی کے ہمراہ توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنے سپریم کورٹ آئے تھے۔ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو سینیئر صحافی و اینکر حامد میر، سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ، پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ، پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ، سابق صدر نیشنل پریس کلب شکیل قرار سمیت صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ سپریم کورٹ پریس اسوسی ایشن کے صدر عبدالقیوم صدیقی اور اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز اسوسی ایشن کے صدر عامر عباسی بھی اپنی اپنی اسوسی ایشن کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ پارلیمنٹ کی پریس گیلری کی نمائندگی ارشد وحید چوہدری کر رہے تھے۔

12 بج کر 58 منٹ پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی کمرہ عدالت میں آ کر بیٹھ گئے۔ مطیع بھائی پہلے سینیئر صحافی حامد میر کے ساتھ بیٹھے تھے، پھر کورونا ایس و پیز کی وجہ سے ایک نشست خالی کرنی پڑی تو میری نشست کے عقب میں موجود نشست پر آ کر بیٹھ گئے۔

بالآخر 1 بج کر 5 منٹ پر دربان کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور ججز کے گاؤن اٹھا کر لے گئے۔ ایک بج کر سات منٹ پر دربان دوبارہ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور آواز لگائی کہ کورٹ آ گئی ہے۔ ہم سب اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔ جسٹس مشیر عالم بائیں طرف اور جسٹس اعجازالاحسن دائیں ہاتھ جب کہ تین رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد آ کر مرکزی نشست پر بیٹھ گئے۔ اٹارنی جنرل اور مطیع اللہ جان روسٹرم پر آ کر کھڑے ہوگئے تو چیف جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے سوالیہ انداز میں پوچھا جی اٹارنی جنرل صاحب؟ پھر چیف جسٹس بولے، مطیع اللہ جان خود بھی آئے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سوال پوچھا کہ ٹی وی پر چلا مطیع اللہ جان اغوا ہو گئے تھے۔ کیا ایسا ہوا؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ سر ایف آئی آر کٹ گئی ہے اور یہ واپس آ گئے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اگلا سوال پوچھا کہ کیا خود چلے گئے تھے اور خود واپس آ گئے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بنچ کے سربراہ چیف جسٹس گلزار احمد نے آبزرویشن دی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا، تو واپس آئے ہیں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ جی سر میرا بھائی مطیع اللہ جان آ گیا ہے اور صحیح سلامت واپس آ گیا ہے، فتح جنگ کے پاس سے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کیا مطیع اللہ جان کا بیان ریکارڈ کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی بیان ریکارڈ کرنا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومتی محکمے کیا کر رہے ہیں؟ ابھی تک بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا؟ چیف جسٹس نے سر اٹھا کر کمرہ عدالت پر نظر ڈالتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی کو بلائیں، کیوں بیان ریکارڈ نہیں کیا ابھی تک؟

چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد عباسی کی درج کروائی ایف آئی آر پڑھتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس میں لکھا کہ اغوا کا سوموٹو کیس سے تعلق ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ مطیع اللہ جان کے بھائی کا بیان ہے۔ پاس کھڑے مطیع اللہ جان نے وضاحت کرنی چاہی تو چیف جسٹس گلزار احمد نے روک دیا اور ہدایت کی کہ آپ صرف توہین عدالت والے نوٹس پر بولیے گا۔

اسی دوران سابق گورنر پنجاب اور سینیئر قانون دان لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ اور پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ روسٹرم کے پاس آ گئے اور مائیک کے سامنے آئے بغیر لطیف کھوسہ نے تین رکنی بنچ سے استدعا کی کہ ہم پاکستان بار کونسل کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عدالت نوٹس لے کہ کیا پاکستان کوئی بنانا رپبلک ہے جو دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھا کر لے گئے؟ لطیف کھوسہ نے بنچ سے درخواست کی کہ آپ حکومت کو ہدایت دیں کہ اغوا کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیں۔

اٹارنی جنرل نے لطیف کھوسہ کی استدعا پر عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ لطیف کھوسہ دوبارہ بولے کہ سی سی ٹی وی وڈیو میں سب کے چہرے ہیں، ان کی شناخت ہونی چاہیے کہ وہ کون تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کے تحفظات اور گذارشات نوٹ کر لی ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ حکومت نے اب تک کیا ایکشن لیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر آئینِ پاکستان کے تحت ہر شہری کا جان و مال ریاست کی ذمہ داری ہے اور پولیس کو ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ تحقیقات جاری ہیں۔

اب چیف جسٹس گلزار احمد نے انتہائی اہم ریمارس دیے کہ کوئی ایجنسی یا شخصیت قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہم ان تحقیقات کی رپورٹ لیں گے۔

اس کے بعد چیف نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان سے استفسار کیا کہ آپ نے توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دے دیا ہے؟ مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ اغوا ہونے کی وجہ سے جواب تیار نہیں کر سکا اور ابھی وکیل بھی کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان کی استدعا قبول کرتے ہوئے عدالتی عملے کو آرڈر لکھوانا چاہا تو مطیع اللہ جان نے درخواست کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے چیف جسٹس گلزار احمد سے درخواست کی کہ مجھے آزاد، شفاف اور مکمل ٹرائل کا موقع دیا جائے۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ تو کوئی کہنے والی بات ہی نہیں ہے۔ آپ کو مکمل، آزاد اور شفاف ٹرائل کا موقع ملے گا اور یہ ہماری جاب ہے کہ آزادانہ اور شفاف ٹرائل کو یقینی بنائیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے اہم لقمہ دیا کہ حکومت آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتے ہیں لیکن عدالت کی عزت کا تحفظ بھی کریں گے۔

مطیع اللہ جان ایک بار پھر بولے اور کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر جوبیتی ہے، اس کا براہ راست تعلق اس توہین عدالت کی کارروائی سے ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ مطیع اللہ جان بولے کہ میں اغوا جو ہوا ہوں، اس کا براہ راست تعلق آپ کی عدالت سے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مطعیع اللہ جان کو ٹوکتے ہوئے ہدایت کی کہ آپ تحریری بیان جمع کروائیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس اعجاز الاحسن کی بات میں اپنی ہدایت بھی شامل کر دی کہ آپ کو بیان دیتے وقت بہت محتاط رہ کر اور سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے آرڈر لکھواتے ہوئے حکومت سے ایف آئی آر پر قانون کے مطابق سخت ایکشن کی توقع کا اظہار کیا اور ایک موقع پر آرڈر میں جب چیف جسٹس گلزار احمد نے لکھوایا کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تو پاس سے جسٹس اعجاز الاحسن نے تصحیح کی کہ آپ لکھوائیں الزام ہے کہ اغوا ہوئے۔ مطیع اللہ جان نے دونوں ججز کو مخاطب کر کے کہا کہ میں مبینہ طور پر اغوا نہیں ہوا، بلکہ سب کچھ سامنے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن جواب دیا کہ ہم آپ کی بات مانتے ہیں لیکن یہ قانونی زبان ہے جو ہم استعمال کر رہے ہیں۔

ہم سب حیرت سے سن رہے تھے کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے آن کیمرہ، جب کہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں اغوا کی تصدیق کی ہے لیکن پھر بھی الزام ہے کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے جب کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں پورا واقعہ ریکارڈ ہے۔

اس موقع پر لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ حکومت پر مت چھوڑ دے اور خود اس معاملے کو انجام تک پہنچائے۔ اس موقع پر لطیف کھوسہ نے طنزیہ انداز میں شعر بھی پڑھا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ بالکل ہم اس معاملہ کو یہیں نہیں ختم کریں گے۔

آرڈر لکھواتے ہوئے ایک موقع پر چیف جسٹس نے صرف مطیع اللہ جان لکھوایا تو پاس سے جسٹس مشیر عالم نے اغوا ہونے والے مطیع اللہ جان کے الفاظ جملے میں شامل کروائے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے دو ہفتوں بعد آئی جی اسلام آباد کو اغوا پر رپورٹ پیش کرنے اور مطیع اللہ جان کو توہین عدالت کا جواب دینے کی مہلت دے کر سماعت ملتوی کر دی۔

کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے تمام صحافیوں، اینکرز، میڈیا کے اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور خصوصاً اسلام آباد ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کیا کہ آپ سب کے آواز اٹھانے کی وجہ سے آج میں آپ سب کے درمیان کھڑا ہوں۔ مطیع اللہ جان نے یہ بھی کہا کہ جو اغوا کرتے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میرے ساتھ کچھ ہو جاتا تو باقی سب صحافی ڈر جاتے تو میں ان کو بتا دینا چاہتا ہوں ایسا بالکل نہیں ہوگا۔

مطیع بھائی سے اغوا کے واقعہ پر بھی آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی لیکن انہوں نے درخواست کی کہ کیونکہ چیف جسٹس نے ابھی بیان ریکارڈ کروانے کا کہا ہے تو اس گفتگو کو رپورٹ مت کروں اور جب بیان ریکارڈ کروا دوں گا تو اس کی کاپی رپورٹ کر دینا۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نیا دور کے قارئین کے ساتھ اب سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کے ریکارڈ شدہ بیان کو شیئر کروں گا۔ لیکن ایک بات ضرور بتاؤں گا کہ گفتگو کے دوران ایک لمحہ کے لئے بھی ایسا گمان نہیں ہوا کہ بازیابی کے بعد مطیع اللہ جان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو چکا ہے۔

میرے پر جو بیتی اس کا تعلق اس عدالتی کاروائی سے ہے۔ مطیع اللہ جان کا چیف جسٹس سے مکالمہ

 

جاسم محمد

محفلین
مطیع اللہ جان ایک بار پھر بولے اور کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر جوبیتی ہے، اس کا براہ راست تعلق اس توہین عدالت کی کارروائی سے ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ مطیع اللہ جان بولے کہ میں اغوا جو ہوا ہوں، اس کا براہ راست تعلق آپ کی عدالت سے ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مطعیع اللہ جان کو ٹوکتے ہوئے ہدایت کی کہ آپ تحریری بیان جمع کروائیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس اعجاز الاحسن کی بات میں اپنی ہدایت بھی شامل کر دی کہ آپ کو بیان دیتے وقت بہت محتاط رہ کر اور سوچ سمجھ کر بولنا ہوگا۔
مطیع اللہ جان نے توہین سپریم کورٹ کے اعلیٰ ججز کی کی تھی۔ کل کی اہم سماعت اس مقدمہ کی ہونی تھی۔ اور اس سے محض ایک دن قبل مطیع اللہ جان کو اغوا کرکے اسے قومی ہیرو بنا دیا گیا۔ یہ سیکورٹی ایجنسیاں تو خود اس بہادر صحافی کے ساتھ کھڑی ہیں۔
 
مطیع اللہ جان نے توہین سپریم کورٹ کے اعلیٰ ججز کی کی تھی۔ کل کی اہم سماعت اس مقدمہ کی ہونی تھی۔ اور اس سے محض ایک دن قبل مطیع اللہ جان کو اغوا کرکے اسے قومی ہیرو بنا دیا گیا۔ یہ سیکورٹی ایجنسیاں تو خود اس بہادر صحافی کے ساتھ کھڑی ہیں۔

یہ جملہ علی زیدی، فیصل ووڈا، فواد چوہدری، مراد سعید یا پھر زرتاج گل سے ٹویٹ کروا دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
منصف کی چیخ !
پاکستانی عدلیہ کے بیشتر معزز جج صاحبان پر زمینی سیاسی حقائق آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں جن کے جاننے کے بعد وہ قابل عمل سخت احکامات نہ سہی مگر اپنی رائے اور ریمارکس کے ذریعے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ مطیع اللہ جان کا بلاگ



عمر رسیدہ اپوزیشن جماعتیں اور ستم رسیدہ چند صحافی حضرات جولائی 2018ء کے انتخابات اور پھر حکومت کی احتسابی پالیسی سے متعلق جن خدشات کا اظہار شروع دن سے کر رہے تھے ان خدشات کا اظہار اب سپریم کورٹ کے ججز حضرات اپنے ریٹائرمنٹ والے دن یا اپنے فیصلوں میں کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ویسے تو ابھی بھی کچھ معزز جج صاحبان کو کمرہ عدالت میں اونچی جگہ پر بیٹھ کر ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی ہی بالا دستی نظر آتی ہے مگر بیشتر معزز جج صاحبان پر زمینی سیاسی حقائق آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں جن کے جاننے کے بعد وہ قابل عمل سخت احکامات نہ سہی مگر اپنی رائے اور ریمارکس کے ذریعے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔

پیر 20 جولائی کو سپریم کورٹ نے ایک نیب کیس میں اپوزیشن سیاست دان خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو بہت پہلے سے دی گئی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا، مگر بات ضمانت سے نکل کر بہت دور تک چلی گئی۔ آخر اس گھٹن، خوف اور دباؤ کی فضا میں عدلیہ اور میڈیا کے با ضمیر 'عناصر‘ اپنی بات کو چیخے چلائے بغیر اور کیسے لوگوں تک پہنچائیں؟ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے اس تفصیلی فیصلے نے نہ صرف وزیر اعظم عمران خان کے کرپشن کے خلاف بیانیے کا پوسٹ مارٹم کر دیا ہے بلکہ ملک میں جاری اداراتی سازشوں اور ان کے نتیجے میں جمہوری اور عدالتی نظام کو تباہ کرنے والی قوتوں کی بھی نشاندھی کر دی ہے۔ فیصلے میں دو معزز ججوں نے ملکی سیاست اور اداراتی سازشوں کی جو منظر کشی کی ہے وہ اتنی شرمناک ہے کہ جس کا سایہ ان دو معزز ججوں کے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں ان کے اپنے فیصلے پر بھی پڑ رہا ہے۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ جسٹس باقر اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے جسٹس فائز عیسی کیس کے 10 رکنی بنچ کا بھی حصہ ہوتے کیا فیصلہ دیا اور پھر اس تازہ ترین یعنی خواجہ سعد رفیق ضمانت کیس میں یہ کیا کہتے ہیں۔

جسٹس باقر، جسٹس فائز عیسٰی کیس کی سماعت کے دوران سعد رفیق ضمانت کیس کا تفصیلی فیصلہ لکھ رہے تھے اور اسی دوران ایک سماعت میں انہوں نے ریمارکس دیے کہ احتساب کے نام پر جو کھلواڑ اس ملک کے سیاسی نظام اور اداروں کے ساتھ کھیلا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد جسٹس عیسٰی کیس کے فیصلے میں بھی جسٹس باقر نے نہ صرف دس ججوں سمیت صدارتی ریفرنس کے پرخچے اڑا دیے بلکہ ساتھ ہی سات ججوں کے اکثریتی فیصلے کے برخلاف ایف بی آر اور پھر جوڈیشل کونسل کے ذریعے جج کے اہل خانہ کی مزید تحقیقات کی بھی مخالفت کر دی۔ یہ تو تھی منصف کی مستقل مزاجی کی مثال۔ مگر دوسری طرف جہاں جسٹس میاں مظہر عالم احتساب اور ملک میں جاری اداراتی سازشوں کے حوالے سے جسٹس باقر کے تحریر کردہ خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں وہاں جسٹس فائز عیٰسی کیس میں انہی سازشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جسٹس عیسٰی کے اہل خانہ کی ایف بی آر کے ذریعے مزید تحقیقات کے لیے سات ججوں کے فیصلے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ گھٹن اور دباؤ کے اس ماحول میں چند صحافیوں کی طرح اپنی ساکھ بچانے کے لیے منصفوں کو بھی کیا کیا جتن کرنا پڑ رہے ہیں، کبھی ادھر تو کبھی ادھر تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد موقع کی مناسبت سے اپنے فیصلوں کا حوالہ دے کر سرخرو ہوا جا سکے۔

اب دیکھتے ہیں کہ خواجہ برادران سے متعلق ضمانت کے فیصلے میں ایسا کیا ہے جو ’’قاضی برادران‘‘ کے فیصلے پر اپنا سایہ ڈالتا ہے۔ خواجہ برادران کو دی گئی ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس باقر اور جسٹس عالم بظاہر موجودہ ملکی صورت حال سے اتنے تنگ آمد بجنگ آمد ہوئے کہ بات ضمانت سے بھی آگے نکل گئی۔ آخر میں ''دوائیں بچوں سے دور رکھیں‘‘ کی مانند تیز تیز یہ تو لکھ دیا کہ یہ ریمارکس عارضی نوعیت کے تھے اور ان کا نیب کے اصل ریفرنس پر کوئی اثر نہ پڑیگا۔ مگر حقیقت میں اس فیصلے نے خواجہ برادران کے خلاف نیب کے سارے کیس اور شواہد کا تفصیل کے ساتھ تیا پانچہ کر دیا ہے، بلکہ نیب اور اس کے ''محبوب‘‘ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال، اپنی عدلیہ اور نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کا بیچ چوراہے میں سر سے لیکر پاؤں تک ''سٹیم رول‘‘ کر دیا ہے۔

پانامہ کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ماریو پوزو کے گاڈ فادر کے بابرکت نام سے جو فیصلہ لکھنا شروع کیا تھا اس فیصلے کی اصلیت جسٹس باقر نے جان اسٹوئرٹ مِل (John Stuart Mill) کے بے برکت نام سے اپنا فیصلہ شروع کر کے آشکار کر دی ہے۔ جسٹس باقر اپنے فیصلے کی ابتدا جان سٹوئرٹ مل کے اس مشہور قول سے کرتے ہیں: ''جو ریاست بونے مرد تیار کرتی ہے تاکہ ان کو ایک اطاعت گزار آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکے، چاہے مقصد نیک ہی کیوں نہ ہو، وہ جلد جان جاتی ہے کہ ایسے چھوٹے لوگوں کی ساتھ کوئی بڑے ریاستی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔‘‘

اس کے بعد جسٹس باقر نیب ریفرنس کے شواہد کا ''سر تا پا‘‘ جائزہ لیتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ کس طرح نیب نے اپنے دائرہ کار اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے خواجہ برادران کی آئین میں درج آزادیوں اور ان کے حقوق کو سلب کیا۔ چیئر مین نیب کے سامنے ایک وعدہ معاف گواہ کے بیان کو جس بے ڈھنگے اور غیر آئینی طریقے سے ریکارڈ کیا گیا اس سے ادارے کے کردار اور اس کی نظروں میں قانون کی وقعت کا پتہ چلتا ہے۔ وعدہ معاف گواہ کا جب پہلی بار ریکارڈ کیا گیا بیان تسلی بخش نہ ہوا تو احتساب عدالت سے اس امر کو چھپا کر اس کے ریمانڈ میں عدالت سے توسیع لے لی گئی اور پھر دوسری بار بیان ریکارڈ ہوا۔ جب جوڈیشل عدالت میں بیان ریکارڈ کیا گیا تو ملزموں کو اس کی اطلاع ہی نہ دی گئی اور ان کی عدم موجودگی میں سب کچھ ہو گیا جو ضابطہ فوجداری کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ نیب کی نالائقی دیکھیں کہ ریکارڈ ہوئے اس بیان میں بھی ٹھوس شواہد کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ جسٹس باقر نے ایسے دوسرے شواہد کو بھی باریکی سے دیکھا اور رد کر دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ایک نجی ہاؤسنگ سکیم میں جن عوامی شکایات کو کارروائی کی بنیاد بنایا گیا وہ شکایات نیب کے اپنے بیان کے مطابق نیب تحقیقات کے بعد عوام سے طلب کی گئیں، مگر ان شکایات کی نوعیت بھی نیب قانون کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی۔

جسٹس باقر کے فیصلے کا اصل محور نیب کا ادارہ ، اس کا سیاسی کردار، اور ملکی سیاسی نظام ہے جس کو چند قوتوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ جسٹس باقر آئین کے ابتدائیے کو دہراتے ہیں کہ یہ ملک اسلامی اصولوں کے مطابق جمہوریت، شہری آزادیوں، برابری، برداشت اور معاشرتی انصاف کے لیے بنا ہے جس میں مذہب اور رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین اور قانون کے بغیر کسی شہری کی زندگی اور آزادی سلب نہیں کی جا سکتی۔ انسانی حقوق کی اسلامی اور بین الاقوامی تاریخ کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد جسٹس باقر نے پاکستان کے حالات کا رخ کیا اور پھر اس تمام گھٹن اور دباؤ کو اتار پھینکا جس کا صحافت اور عدالت بظاہر اس وقت بھی شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ برادران کے خلاف نیب کا مقدمہ بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی چھیننے کی غیر قانونی حرکت، اور انسانیت کی تذلیل کی ایک مثال ہے۔ نجانے نیب چیئرمین نے کس بنیاد پر یہ مقدمہ شروع کیا اور خواجہ سعد رفیق کا زیر بحث پیراگون کمپنی سے براہ راست کیا تعلق تھا۔ تاریخ میں لائے گئے تمام احتساب کے قوانین کو ہمارے سیاستدانوں یا عوامی عہدہ رکھنے والوں کو نا اہل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ 1949 کے پروڈا قانون سے لے کر جنرل مشرف کے قومی احتساب بیورو کے قانون تک ان تمام قوانین کا جائزہ لینے کے بعد جسٹس باقر نے کہا کہ نیب کا موجودہ قانون دن بدن انتہائی متنازعہ ہوتا جا رہا ہے اور تاثریہ ہے کہ حکمران اسے جبر اور سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جج صاحب نے کہا کہ بار بار الزام لگ رہا ہے کہ نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ بظاہر یہ ادارہ سیاسی تقسیم کے ایک جانب بڑے مالیاتی سکینڈلز کے باوجود کارروائی نہیں کر رہا ہے۔ مگر دوسری طرف کے سیاستدانوں کو بغیر ٹھوس وجوہات کے کئی کئی ماہ اور سال مقدمہ چلائے بغیر جیل میں رکھا جاتا ہے اور پھر ان کے فیصلے بھی نہیں ہوتے۔ جج صاحب نے بظاہر قومی مفاد کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کو بھی پیغام دیا اور کہا یہ سب ملکی مفاد میں نہیں بلکہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔

جسٹس باقر نے اس موقعے پر احتساب کے عمل، ملک میں جاری اداراتی سازشوں اور ماضی کی آمرانہ قوتوں کے کردار کا بڑے واشگاف الفاظ میں پردہ چاک کیا، لکھتے ہیں (اور جسٹس مظہر عالم اس سے اتفاق کر رہے ہیں): ''احتساب کے قوانین کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے استعمال کیا گیا، سیاسی جماعتوں کو توڑا گیا اور ان کے دھڑے بنائے گئے، بونے لوگوں (چھوٹی سوچ کے لوگوں) کو ''سیلیکٹ‘‘ کیا گیا، ان کی پرورش کی گئی، ان کو مواقع دیے گئے، مشہور کیا گیا اور اقتدار میں لایا گیا، بدنام زمانہ اور جرائم پیشہ افراد کو ہم پر حکمرانی کے لیے مسلط کیا گیا اور اس کے نتائج بھی توقع کے مطابق نکلے۔ جن لوگوں نے ہمارے معاشرے میں موت، تباہی، اور افراتفری بانٹی انہیں اس کی تربیت، فنڈنگ، تحفظ، مواقع دیے گئے اور ان کے قصیدے پڑھے گئے جس کے بعد وہ سب ایک بے قابو عفریت کی شکل دھار گئے۔ اسی عرصے میں طرز حکومت میں بدعنوانی، برے رویے، بری روایات تیزی سے پروان چڑھتی رہیں اور ہر شعبے میں سرایت کر گئیں۔ ریاست کا ہر ادارہ اس دلدل میں پھنس گیا۔‘‘

جسٹس باقر نے اپنے فیصلے کے ذریعے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی بظاہر ''وعدہ معاف گواہ‘‘ بنانے کی کوشش کی اور ان کی الوداعی ریفرنس والی تقریر کا حوالہ دیا۔ عدالتی فیصلوں کی پردہ سکرین پر پانامہ کیس کی فلم میں گاڈ فادر کے کردار کو متعارف کروا کر مذکورہ متنازعہ احتساب کی بنیاد رکھنے والے بھی خود جسٹس کھوسہ ہی تھے۔ جسٹس باقر نے گاڈ فادر کے ڈائیلاگ سے شروع ہونے والی احتساب کی اس فلم کو بظاہر تو فلاپ قرار دے دیا مگر جسٹس کھوسہ کے ریٹائرمنٹ سے پہلے پڑھے گئے ''کلمہ حق‘‘ کو ان کے آخری وقت میں مسلمان ہو کر جانے کا تاثر بھی دیا۔ جسٹس کھوسہ گاڈ فادر اور ''نکے دے فادر‘‘ کی ایکسٹینشن والی اپنی آخری دو فلموں کے بعد الوداعی ریفرنس میں یہ کہہ کر غائب ہو گئے تھے کہ ''ہم بطور ریاست کے ایک ستون محسوس کرتے ہیں کہ یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ ملک میں جاری احتساب کا عمل الٹا سیدھا ہے اور اسے سیاسی انجینیئرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک تاثر ہے جس کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو احتسابی عمل کی ساکھ ختم ہو جائے گی۔‘‘

یہ تقریر کر کے جسٹس کھوسہ نجانے کہاں غائب ہو گئے اور ایسے سنگین دعوے کے ثبوت بھی نہ دیے۔ بحرحال جسٹس باقر مذکورہ تقریر کا حوالہ دے کر بیچ چوراہے میں نیب کے احتساب کا آخری ''کچھا‘‘ ان الفاظ میں اتارتے ہیں: ''اس زور زبردستی اور انسانیت کی تذلیل کی وجہ سے ہی نیب کا ادارہ بین الاقوامی سطح پر بھی بدنامی اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے تازہ جائزے میں نیب کی سیاسی جانبداری کو اجاگر کرتے ہوئے حکومت سے اسکو خود مختار بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔‘‘ المیہ یہ ہے کہ نیب پہلے کونسا حکومت کے ماتحت تھا، ہماری سادہ لوح عدلیہ اور ان یورپی ماہرین کو شاید پتہ نہیں کہ یہاں حکومت کون ہے، مطالبہ اور فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ہماری حکومت کو اختیار دیا جائے۔ جسٹس باقر کے مطابق کمیشن نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں آزادیوں کی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے اور خدشات ہیں کہ نیب اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ جسٹس باقر آگے جا کر لکھتے ہیں کہ یہ ''ریاست‘‘ کی ذمہ داری ہے کہ مختلف خیالات کے اظہار کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے جہاں ہر شخص کے جان اور مال کو تحفظ حاصل ہو۔

جسٹس باقر لکھتے ہیں، ''آئین میں درج انسان کی عزت و وقار کے احترام کا بنیادی حق کسی صورت پامال نہیں کیا جا سکتا اور الزام لگا کر لوگوں کو گرفتار کرنے سے معاشرے میں ان کی اور ان کے اہل خانہ کی تذلیل ہوتی ہے جنھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جدید میڈیا کے اس دور میں گرفتاری کے بعد سرگوشیوں اور پراپیگنڈا سے ملزم کی کردار کشی کی جاتی ہے جو ذہنی اور نفسیاتی اذیت ہے۔ جسٹس باقر نے کہا کہ ہائی کورٹس کو بھی ضمانتوں کے معاملے پر لاپرواہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جب کسی شہری کی آزادی سلب کی جائے تو ہائی کورٹس کو درگزر نہیں کرنا چاہیے اور ان شہریوں سے منہ نہیں پھیر لینا چاہیے۔‘‘

جسٹس باقر کے مطابق ہماری قوم کی نجات مخالف خیالات کو دبانا نہیں بلکہ ایسے خیالات کے حامل لوگوں کے لیے سوچ، ضمیر اور اظہار کی آزادی کا مطالبہ کرنا ہے جس کے بغیر امن ممکن نہیں۔ جسٹس باقر نے انقلابی شاعر حبیب جالب کا یہ شعر لکھا:
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو


یہ سب کچھ کوئی غدار صحافی یا تجزیہ کار نہیں کہہ رہا بلکہ سپریم کورٹ کا ایک معزز جج اپنے تفصیلی تحریری فیصلے میں کہہ رہا ہے۔ تو پھر اس فیصلے کی روح سے جولائی 2018ء سے آج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس تک جو کچھ ہوا کیا وہ اپنوں کی طرف سے قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف نہیں تھا؟ کیا جسٹس مظہر عالم جسٹس عیسٰی کیس کے تفصیلی فیصلے میں بھی مذکورہ حالات و واقعات کا اسی شد ومد سے ذکر کریں گے؟ آج خواجہ برادران تو سرخرو ہو گئے مگر کل ’’قاضی برادران‘‘ بھی سرخرو ہوں گے؟

جان سٹوئرٹ مِل شاید یہ کہنا چاہتا تھا:
اپنوں ہی کے بوٹوں تلے روندے ہوئے یہ لوگ
دشمن سے بھلا کیونکر بے خوف لڑیں گے
 

جاسم محمد

محفلین
کیا ریاست کو سوال سننا پسند نہیں؟
میرے پیارے پاکستان کا صحن اتنا تنگ نہیں کہ جہاں مختلف سوچ، نظریات اور تضادات والے ایک ساتھ جی نہ سکیں، ساتھ کھیل نہ سکیں اور ہار جیت میں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرسکیں۔
عفت حسن رضوی مصنفہ، صحافی @IffatHasanRizvi
جمعرات 23 جولائی 2020 8:00

آج اگر صحافیوں میں مطیع اللہ جان یا ججز میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کھٹک رہے ہیں تو سوال کرنے والے یہ پہلے یا آخری افراد تو نہیں۔ شخصی آزادی اور شعور و آگہی پر اگر جسٹس مقبول باقر نے علمی بحث ایک فیصلے میں چھیڑ دی تو یہ بھی اس کتاب کا آخری ورق نہیں۔

نوجوان وکلا اب اگر آئین کے آرٹیکل کو بنیاد بنا کر ریاست سے کچھ پوچھ لیں تو اس میں برا کچھ بھی نہیں۔ کوئی فزکس کا پروفیسر عمر بھر اپنے طالب علموں کو صرف سوال کرنے کی ہمت دلاتا رہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟

جبکہ ہم جانتے ہیں کہ قومیں ایسے ہی جی دار لوگوں سے بنتی ہیں جو رسک لینا جانتے ہیں، تاریخ ہمیشہ انکار کرنے والوں کو جھک کر سلام کرتی ہے، ایک سوال دنیا کی سمت بدل دیتا ہے پھر کیوں بضد ہیں کہ متضاد یا مختلف کوئی نہ سوچے؟ کیوں یہ اصرار ہے کہ قومی سلامتی اسی میں ہے اگر ہم اوسط سوچ والے مشینی پرزے بن جائیں؟ ایسے بے جان پرزے جنہیں بس حالات کو ناپ تول کر، دبے قدموں چلنے کا ٹاسک دیا گیا ہو۔

میرے پیارے پاکستان کا صحن اتنا تنگ نہیں کہ جہاں مختلف سوچ، نظریات اور تضادات والے ایک ساتھ جی نہ سکیں، ساتھ کھیل نہ سکیں اور ہار جیت میں ایک دوسرے کو برداشت نہ کرسکیں۔

قوم اطمینان رکھے کہ سوال کرنے والے کسی نہ کسی شکل میں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انکار کرکے خمیازے بھگتنے والے اب بھی ہم میں پائے جاتے ہیں۔

گھسی پٹی کہنے کی بجائے اپنی سی کہنے والے، دیکھے بھالے راستوں کو چھوڑ کر نئی ڈگر پر چلنے والے ختم نہیں ہوئے۔
 
Top