فرذوق احمد
محفلین
میں معذرت کے ساتھ یہاں یہ سٹوری یہاں پیش کر رہا کیونکہ ۔یہ سٹوری تو میں نےلکھی ہے ،،مگر جس پپر پر میں نے لکھی تھی وہ گم ہو گیا ہے ۔۔اور شمشاد بھائی قیصرانی بھائی کافی دنوں سے ضد کر رہے تھے ۔۔مگر میں پوری نہ کر سکا ۔ویسے بھی میٹرک کے امتحان قریب آ گئے ہیں تو اس لئے وقت بھی نہیں ملتا ۔۔کہ میں اس کہانی کو نئے سرے سے سوچ کر لکھوں ،،تو اس لئے میں یہ کہانی یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔کہ آپ لوگ اسے مکمل کر دیں ۔مگر یاد رہے ۔کہانی کا ردھم یہی رہے ۔۔مزاحیہ شکل اختیار نہ کرے ۔۔اور جو بندہ اس کہانی کو مناسبت سے ختم کریں گا تو اس کے لیے ایک علیدہ زمرہ کھولا جائے گا ۔جہاں آپ کو اچھا یا برا اینڈ کرنے پر مبارک بادی دی جائے گی ۔۔۔۔اور اس کے اینڈ پر اراکین اپنے تبصرے کا اظہار بھی کریں گے ۔۔آپ اس کہانی کا نام تبدیل بھی کر سکتے ہیں ،مگر سٹوری کے لحاظ سے
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------بلا عنوان --------------------------------------------------------
وہ گھر میں داخل ہوئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گھر کا سارا سامان بَکھرا ہوا ہے ۔اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بیساکھی کو دیوار کے ساتھ لگایا ۔اور ایک بار کھڑے ہو کر اطمینان کے ساتھ گھر جائزہ لینے لگی ایک پلیٹ جس میں کچھ چاول پڑے ہوئے تھے پلیٹ کے ساتھ ہی کچھ چائے کے کپ اور چولہے پر ایک کیتلی جس میں چائے کی اثران نمایاں تھے ،اچانک اُس کی نظر زمین پر پڑے ہوئے ایک کپ پر پڑی جو شائد کسی کے پاؤں لگنے کی وجہ سے گِر گیا تھا ۔اُس نے دیکھا کہ ایک چوہا اُس کپ میں سے چائے کی رس چوسنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اُس نے جلدی سے اپنی بیساکھی کو پکڑا جو اس نے دیوار کے ساتھ لگائی تھی ۔اور لڑکھڑاتی ہوئی چوہے کی طرف گئی ،مگر شائد چوہے نے اُس کے قدموں کی آہٹ سن لی تھی اور وہ اپنی منزل کی طرف چلا گیا ۔اُس نے اپنی بیساکھی پاس پڑی ہوئی چارپائی پر رکھی اور خود زمین پر بیٹھ کر بِکھرے ہوئے برتن اکٹھے کرنے لگی ۔کچھ برتن اُس سے کچھ دور تھے جِن کو پکڑنے کے لیئے اُسے کچھ مشقت کرنی پڑتی ،برتن اکٹھے کرتے ہوئے اُس نے پھر دیکھا کہ وہی چوہا اب گلاس میں سے پانی پینے کی کوشش کر رہا ہے ،اب کی بار اُسے غصہ آیا اور دور بیٹھی ہاتھ کے اشارے سے چوہے کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرتی رہی ،اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے چوہا اُس کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہا ہو۔اسی خیال نے اُسے اندر سے بکھیر دیا۔اُس نے سارے کام چھوڑے اور چوہے کو بھی کچھ نہیں کہا اور پاس پڑی ہوئی چارپائی کے سہارے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ایک نظر اُس نے چوہے کی طرف دیکھا جو ابھی گلاس میں سے پانی پینے کوشش کر رہا تھا ۔۔آج اُسے اپنے گھر سے بہت وحشت محسوس ہو رہی تھی کیونکہ اس سے پہلے اُس نے اپنے گھر میں کبھی اتنا گند نہیں دیکھا تھا ،وہ اندر ہی اندر پتا نہیں کیا کچھ بڑبڑائے جا رہی تھی ۔ایک بار پھر اُسکا دھیان اُس گلاس پر گیا جہاں اب چوہا نہیں تھا ۔گلاس کو دیکھ کر اُسے پیاس کا احساس ہوا ،مگر وہ اب اُس گلاس میں پانی نہیں پینا چاہتی تھی ۔گلاس ڈھونڈنے کی غرص سے اُس نے زمین پر نظریں دوڑائی مگر اُسے کوئی بھی برتن صاف دکھائی نہ دیا سبھی برتن دھونے والے تھے ۔اُس نے زمین سے وہی گلاس اُٹھایا اور بیساکھی کے سہارے چلتے ہوئے نل کے پاس پہنچی ۔گلاس کو اچھی طرح دھونے کے بعد اُس نے اپنے اطمینان کے لئے منہ میں نہ جانے کیا پڑھا اور گلاس میں بھر کر پینے لگی ۔اب وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگی ایک نظر اُس نے گھڑی پر ڈالی جس پر ابھی سوا بارہ بجے ہوئے تھے ،
سوا بارہ ہوگئے ہیں مگر ابھی تک گھر کوئی کیوں نہیں آیا؟ کہاں گئے ہو گے سب؟
یہی سوچتے ہوئے وہ چارپائی کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک اُس کا پاؤں پھسلا اور وہ بری طرح گِر گئی اُس کے منہ سے ایک درد بھری چیخ نکلی ،مگر وہ بھی رائیگاں گئی ،گھر میں تو کوئی تھا نہیں جو اُس کی آواز سنتا اور اُسکو آکے سہارا دیتا ۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے پیر کو پکڑ کر مسل رہی تھی آنکھوں میں آنسو جا ری تھے مگر کوئی نہ تھا جو اُس کو آ کے سہارا دیتا ۔
وہ اُٹھنے کے لیے بیساکھی ڈھونڈنے لگی جو اُس کے گرنے کی وجہ سے اُس سے دور جا گری تھی ۔وہ بیساکھی کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک اُس کو پانچ سال پہلے کہے ہوئے عرفان کے الفاظ یا آ گئے ۔
جبیں میں کب تک تمہارا ساتھ دونگا ۔میں نے تو زنگی میں بہت آگے بڑھنا ہے ،مجھے تو خود ایک مصبوط سہارے کی ضرورت ہے اور میں تمہارا ٹوٹا ہوا سہارا کیسے لے سکتا ہوں،اگر تو میں تمہارا سہارا لوں گا تو میری زندگی کی رفتار بہت مدھم ہوجائے گی اور یہ میں ہرگز نہیں چاہتا ۔
اُسے پل پل بے بسی کا احساس دلانے کے لیے عرفان کہ کہے ہوئے یہ الفاظ کافی تھے
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------بلا عنوان --------------------------------------------------------
وہ گھر میں داخل ہوئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گھر کا سارا سامان بَکھرا ہوا ہے ۔اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بیساکھی کو دیوار کے ساتھ لگایا ۔اور ایک بار کھڑے ہو کر اطمینان کے ساتھ گھر جائزہ لینے لگی ایک پلیٹ جس میں کچھ چاول پڑے ہوئے تھے پلیٹ کے ساتھ ہی کچھ چائے کے کپ اور چولہے پر ایک کیتلی جس میں چائے کی اثران نمایاں تھے ،اچانک اُس کی نظر زمین پر پڑے ہوئے ایک کپ پر پڑی جو شائد کسی کے پاؤں لگنے کی وجہ سے گِر گیا تھا ۔اُس نے دیکھا کہ ایک چوہا اُس کپ میں سے چائے کی رس چوسنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اُس نے جلدی سے اپنی بیساکھی کو پکڑا جو اس نے دیوار کے ساتھ لگائی تھی ۔اور لڑکھڑاتی ہوئی چوہے کی طرف گئی ،مگر شائد چوہے نے اُس کے قدموں کی آہٹ سن لی تھی اور وہ اپنی منزل کی طرف چلا گیا ۔اُس نے اپنی بیساکھی پاس پڑی ہوئی چارپائی پر رکھی اور خود زمین پر بیٹھ کر بِکھرے ہوئے برتن اکٹھے کرنے لگی ۔کچھ برتن اُس سے کچھ دور تھے جِن کو پکڑنے کے لیئے اُسے کچھ مشقت کرنی پڑتی ،برتن اکٹھے کرتے ہوئے اُس نے پھر دیکھا کہ وہی چوہا اب گلاس میں سے پانی پینے کی کوشش کر رہا ہے ،اب کی بار اُسے غصہ آیا اور دور بیٹھی ہاتھ کے اشارے سے چوہے کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرتی رہی ،اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے چوہا اُس کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہا ہو۔اسی خیال نے اُسے اندر سے بکھیر دیا۔اُس نے سارے کام چھوڑے اور چوہے کو بھی کچھ نہیں کہا اور پاس پڑی ہوئی چارپائی کے سہارے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ایک نظر اُس نے چوہے کی طرف دیکھا جو ابھی گلاس میں سے پانی پینے کوشش کر رہا تھا ۔۔آج اُسے اپنے گھر سے بہت وحشت محسوس ہو رہی تھی کیونکہ اس سے پہلے اُس نے اپنے گھر میں کبھی اتنا گند نہیں دیکھا تھا ،وہ اندر ہی اندر پتا نہیں کیا کچھ بڑبڑائے جا رہی تھی ۔ایک بار پھر اُسکا دھیان اُس گلاس پر گیا جہاں اب چوہا نہیں تھا ۔گلاس کو دیکھ کر اُسے پیاس کا احساس ہوا ،مگر وہ اب اُس گلاس میں پانی نہیں پینا چاہتی تھی ۔گلاس ڈھونڈنے کی غرص سے اُس نے زمین پر نظریں دوڑائی مگر اُسے کوئی بھی برتن صاف دکھائی نہ دیا سبھی برتن دھونے والے تھے ۔اُس نے زمین سے وہی گلاس اُٹھایا اور بیساکھی کے سہارے چلتے ہوئے نل کے پاس پہنچی ۔گلاس کو اچھی طرح دھونے کے بعد اُس نے اپنے اطمینان کے لئے منہ میں نہ جانے کیا پڑھا اور گلاس میں بھر کر پینے لگی ۔اب وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کرنے لگی ایک نظر اُس نے گھڑی پر ڈالی جس پر ابھی سوا بارہ بجے ہوئے تھے ،
سوا بارہ ہوگئے ہیں مگر ابھی تک گھر کوئی کیوں نہیں آیا؟ کہاں گئے ہو گے سب؟
یہی سوچتے ہوئے وہ چارپائی کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک اُس کا پاؤں پھسلا اور وہ بری طرح گِر گئی اُس کے منہ سے ایک درد بھری چیخ نکلی ،مگر وہ بھی رائیگاں گئی ،گھر میں تو کوئی تھا نہیں جو اُس کی آواز سنتا اور اُسکو آکے سہارا دیتا ۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے پیر کو پکڑ کر مسل رہی تھی آنکھوں میں آنسو جا ری تھے مگر کوئی نہ تھا جو اُس کو آ کے سہارا دیتا ۔
وہ اُٹھنے کے لیے بیساکھی ڈھونڈنے لگی جو اُس کے گرنے کی وجہ سے اُس سے دور جا گری تھی ۔وہ بیساکھی کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک اُس کو پانچ سال پہلے کہے ہوئے عرفان کے الفاظ یا آ گئے ۔
جبیں میں کب تک تمہارا ساتھ دونگا ۔میں نے تو زنگی میں بہت آگے بڑھنا ہے ،مجھے تو خود ایک مصبوط سہارے کی ضرورت ہے اور میں تمہارا ٹوٹا ہوا سہارا کیسے لے سکتا ہوں،اگر تو میں تمہارا سہارا لوں گا تو میری زندگی کی رفتار بہت مدھم ہوجائے گی اور یہ میں ہرگز نہیں چاہتا ۔
اُسے پل پل بے بسی کا احساس دلانے کے لیے عرفان کہ کہے ہوئے یہ الفاظ کافی تھے