میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
کتنی عجیب بات ہے کہ اکثر محض بچوں کی باتوں یا لڑائیوں میں بڑے بھی کود پڑتے ہیں اور پھر محلے، رشتہ داروں میں ٹھن جاتی ہے اور بات گالی گلوچ سے بھی نکل کر باقاعدہ لڑائی بھڑائی تک پہنچ جاتی ہے اور لوگ کبھی ان جھگڑوں میں زخمی بھی ہو جاتے ہیں اور قتل بھی ہو جاتے ہیں اور ایسی خبریں اخباروں اور ٹیلیویژن کے لئے موضوع بن جاتی ہیں۔

مگر جب درندہ صفت لوگ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی نہیں بخشتے اور درندگی کا شکار بناتے ہیں تو نہ تو پڑوسی احتجاج کرتے ہیں نہ رشتے دار، فقط میڈیا آواز اٹھاتا ہے ۔۔۔۔ آخر کیوں؟
 

شمشاد

لائبریرین
بیٹی

والدین شاید بیٹیوں سے اسی لیے زیادہ پیار کرتے ہیں کہ نہ جانے ان کی آئندہ زندگی میں انہیں اتنا پیار، لاڈ اور مان میسر آ بھی سکے گا کہ نہیں؟ جس شخص کے ہاتھوں میں وہ اپنی ہیرے جیسی بیٹی دے رہے ہیں، وہ اس کی قدر کر سکے گا کہ نہیں؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیاہی بیٹیوں کے دُکھ بابل کی دہلیز کے اندر بیٹھی بیٹیوں سے کہیں زیادہ دل شکن اور اعصاب توڑ ہوتے ہیں جو اچھے خاصے والدین کو ریت کی بھر بھری دیوار کی طرح آہستہ آہستہ زمن بوس کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے دعاؤں میں نصیب کے اچھے ہونے کی دُعا سر فہرست رہی ہے۔
 
اقبال کی برکتیں

“ارے میاں ضربِ کلیم ! بھئ کہاں ہو ضربِ کلیم“
“میاں ضربِ کلیم - ابھی تک زبورِ عجم کو اسکول لے کر نہیں گئے۔ جاؤ اور ذرا پیامِ مشرق کو میرے پاس بھیج دو۔“

“مولوی صاحب یہ کیا؟“ میں نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا، “یہ ضربِ کلیم، یہ زبورِ عجم - - - - “

“ہاں میاں، مولوی عبدالصمد خان نے فخر سے اپنی گنجی چندیا کھجاتے ہوئے کہا “مجھے اقبال سے بڑی عقیدت ہے، وہ میرے محسن ہیں، وہ میرے رزاق ہیں، انہوں نے میرا گھر بھر دیا، میں ان کا معتقد ہوں۔ میں نے اظہارِ عقیدت کے طور پر اپنے سب بچوں کے نام ان کی تصانیف پر رکھ دیے ہیں۔“

“ضربِ کلیم چھٹی کلاس میں پڑھتا ہے، بی بی زبورِ عجم دوسری جماعت کی طالبہ ہے، پیامِ مشرق گھڑی سازی کی دکان پر کام سیکھ رہا ہے اور کلامِ جبریل قرآن پاک حفظ کر رہا ہے۔ اور میری بڑی بیٹی اسرارِ خودی کالج کی طالبہ ہے اور میں نے اپنی بیوی کا نام بھی غفورن بی بی چھوڑ کر بانگِ درا رکھ چھوڑا ہے۔“

اتنے میں اندر سے دستک ہوئی۔ “ذرا سُنیے مولوی صاحب “

مولوی صاحب دروازے کی طرف لپکے، “ہاں پھوپھی فاطمہ، کوئی خوشخبری ہے کیا؟“

“ہاں مولوی صاحب! مبارک ہو، خدا نے آپکو جڑواں بچے دیئے ہیں اور دونوں ہی لڑکے ہیں۔“

مولوی صاحب آ کر بیٹھ گئے۔ خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

“خدا نے دو بچے ایک دم عطا کیے ہیں میاں۔“

“مبارک باد قبول کریں مولوی صاحب!“

“ہاں میاں! خدا کا احسان ہے۔ اچھا میاں! خدا تمہاری خیر کرے، ان کے نام تو بتاؤ۔ اقبال کی کتابوں کے نام تو قریب قریب ختم ہو گئے۔ تاہم دماغ لڑاؤ اور کوئی اچھے سے دو نام سوچو۔“

“سوچ لیئے، مولوی صاحب! سوچ لیئے۔“

“ہاں ہاں بتاؤ۔“

“شکوہ اور جوابِ شکوہ“

(ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب “سدا بہار“ سے اقتباس)
بہت اچھا جناب
 
اقبال کی برکتیں

“ارے میاں ضربِ کلیم ! بھئ کہاں ہو ضربِ کلیم“
“میاں ضربِ کلیم - ابھی تک زبورِ عجم کو اسکول لے کر نہیں گئے۔ جاؤ اور ذرا پیامِ مشرق کو میرے پاس بھیج دو۔“

“مولوی صاحب یہ کیا؟“ میں نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا، “یہ ضربِ کلیم، یہ زبورِ عجم - - - - “

“ہاں میاں، مولوی عبدالصمد خان نے فخر سے اپنی گنجی چندیا کھجاتے ہوئے کہا “مجھے اقبال سے بڑی عقیدت ہے، وہ میرے محسن ہیں، وہ میرے رزاق ہیں، انہوں نے میرا گھر بھر دیا، میں ان کا معتقد ہوں۔ میں نے اظہارِ عقیدت کے طور پر اپنے سب بچوں کے نام ان کی تصانیف پر رکھ دیے ہیں۔“

“ضربِ کلیم چھٹی کلاس میں پڑھتا ہے، بی بی زبورِ عجم دوسری جماعت کی طالبہ ہے، پیامِ مشرق گھڑی سازی کی دکان پر کام سیکھ رہا ہے اور کلامِ جبریل قرآن پاک حفظ کر رہا ہے۔ اور میری بڑی بیٹی اسرارِ خودی کالج کی طالبہ ہے اور میں نے اپنی بیوی کا نام بھی غفورن بی بی چھوڑ کر بانگِ درا رکھ چھوڑا ہے۔“

اتنے میں اندر سے دستک ہوئی۔ “ذرا سُنیے مولوی صاحب “

مولوی صاحب دروازے کی طرف لپکے، “ہاں پھوپھی فاطمہ، کوئی خوشخبری ہے کیا؟“

“ہاں مولوی صاحب! مبارک ہو، خدا نے آپکو جڑواں بچے دیئے ہیں اور دونوں ہی لڑکے ہیں۔“

مولوی صاحب آ کر بیٹھ گئے۔ خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

“خدا نے دو بچے ایک دم عطا کیے ہیں میاں۔“

“مبارک باد قبول کریں مولوی صاحب!“

“ہاں میاں! خدا کا احسان ہے۔ اچھا میاں! خدا تمہاری خیر کرے، ان کے نام تو بتاؤ۔ اقبال کی کتابوں کے نام تو قریب قریب ختم ہو گئے۔ تاہم دماغ لڑاؤ اور کوئی اچھے سے دو نام سوچو۔“

“سوچ لیئے، مولوی صاحب! سوچ لیئے۔“

“ہاں ہاں بتاؤ۔“

“شکوہ اور جوابِ شکوہ“

(ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب “سدا بہار“ سے اقتباس)
بہت اچھا جناب
 
ملتے جلتے ہیں یہاں لوگ ضرورت کے لئے
ہم تیرے شہر میں آئے ہیں محبت کے لئے
وہ بھی آخر تیری تعریف میں ہی خرچ ہوا
ہم نے جو وقت نکالا تھا شکایت کے لئے
میں ستارہ ہوں مگر تیز نہیں چمکوں گا
دیکھنے والوں کی آنکھوں کی سہولت کے لئے
تم کو بتلاؤں کہ دن بھر وہ میرے ساتھ رہا
ہاں وہی شخص جو مشہور ہے عجلت کے لئے
 

شمشاد

لائبریرین
ذرا بتلائیں

کیا کسی کو پتہ ہے کہ :-
دل پر رکھنے والا پتھر کہاں سے ملے گا اور
*کتنے کلو کا ہونا چاہیے ؟

کسی کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہو تو
کونسا ٹھیک رہے گا؟؟ *ساده یا iodine wala۔۔۔*

وہ پوچھنا یہ تھا کہ
بھاڑ میں جانے کے لئے *رکشہ ٹھیک رہے گا یا ٹیکسی؟؟*

کوئی بتا سکتا ہے کہ
لوگ عزت کی روٹی کمانے میں لگے ہوئے ہیں...*کوئی عزت کا سالن کیوں نہیں کماتا؟؟*

ایک بات بتائیے کہ
یہ جو ڈنر سیٹ ہوتا ہے *اس میں لنچ کر سکتے ہیں کیا؟؟*

ایک اور بات بتائیے کہ
جن کی دال نہیں گلتی * اُن کو سبزی گلانے کی اجازت ہے کیا؟؟*

پوچھنا یہ تھا کہ
اگر کسی سے چکنی چپڑی باتیں کرنا ہو تو *کون سا گھی صحیح رہے گا دیسی یا بناسپتی ؟؟* یا گاڑیوں میں استعمال ہونے والی گریس بھی کام کر جائے گی۔

کسی کو پتہ ہے
غلطیوں پر ڈالنے والا پردہ کہاں ملتا ہے *اور کتنے میٹر کا لینا ہوگا؟؟*

کوئی مجھے بتائے گا کہ
جو لوگ کہیں کے نہیں رہتے *تو پھر وہ کہاں رہتے ہیں؟؟*

ایک یہ بات بھی پوچھنا ہے
کسی کا مذاق اڑانا ہو تو...*کتنی اونچائی تک اڑایا جائے ؟؟*

اور ہاں کوئی یہ بتائے گا کہ
کسی کو مکھن لگانا ہو تو *گائے کا ٹھیک رہے گا یا بھینس کا ؟؟*

کہیں سے پوچھ کے بتائیے گا کہ
کسی کے معاملے میں ٹانگ اڑانی ہو تو * کونسی ٹھیک رہے گی دائیں یا بائیں والی؟؟*

کسی کو معلوم ہے
جو جیتے جی مر جاتے ہیں *اُن کے کفن دفن کا معقول انتظام بھی کیا جاتا ہے کیا ؟؟*

اور آخر میں ذرہ تکلیف کر کے سمجھائیے گا کہ
جو کسی پہ مر مٹتے ہیں * وہ چلتے پھرتے کھاتے پیتے ہنستے گاتے سوتے جاگتے کیوں نظر آتے ہیں ؟؟*
 

شمشاد

لائبریرین
دانش مند کی بات سننا اور سمجھنا آدھا علم ہے اور کسی نادان یا جاہل کی ناگوار بات کو برداشت کرنا انسان کے علم کا مکمل اظہار ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اگر کوئی تم سے بھلائی کی امید رکھے تو اس کو مایوس مت کرو، کیونکہ لوگوں کی ضرورتوں کا تم سے وابستہ ہونا تم پر اللہ تعالٰی کا خاص کرم ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
زندگی میں ہمیشہ وہ لوگ پُرسکون رہتے ہیں جو پوری نہ ہونے والی خواہشوں سے زیادہ ان نعمتوں پر شکر کرتے ہیں جو انہیں اللہ تعالٰی نے عطا کی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
احساس کے رشتے دستک کے محتاج نہیں ہوتے۔ یہ تو خوشبو کی طرح ہوتے ہیں جو بند دروازوں سے بھی گزر جاتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
دعا کی قبولیت آواز کی بلندی نہیں بلکہ :
"دعا" دل کی تڑپ کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ
"دعا" صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں،
"دعا" روح کی طلب اور کیفیت کا نام ہے
"دعا" ہمیشہ مانگتے رہیں
"دعا" ہمیشہ دیتے رہیں
"دعا" ہمیشہ لیتے رہیں
 

شمشاد

لائبریرین
دکھ اور تکالیف انسان کو پریشان کرنے کے لیے نہیں بلکہ بیدار کرنے کے لیے آتے ہیں تاکہ انسان کا رابطہ اپنے خالق سے بحال رہے اور دعائیں ہی تو ہیں جو تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اچھے لوگ ہمیشہ اللہ کے تحائف استعمال کرتے ہیں۔

ہونٹوں پر "سچ"
چہرے پر "مسکراہٹ"
الفاظ میں "دعا"
آنکھوںمیں "ہمدردی"
 
Top