میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
جو پُورے ہونے سے رہ گئے تھے وہ خواب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
یقین مانو، پرانی رُت کے گلاب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں

تمہارے لفظوں کی دھیمی خوشبو حواسِ خمسہ کو نوچتی ہے،
خطوں کی صورت میں سچ کہوں تو عذاب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں

وصال لمحوں کا گوشوارہ الگ سے لکّھا ہے ڈائری میں
الگ سے فُرقت کی بے بسی کے حساب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں

ہمیں پڑھانا ہے اپنے بچّوں کو اپنی نسلیں سنوارنی ہیں
اسی لئے تو ہم اپنی حالت خراب رکّھے ہوئے ہیں گھر میں
 

شمشاد

لائبریرین
"ظرف" وسیع ہو تو "تعلق" کو موت نہیں آتی۔ اچھے لوگوں سے تعلقات اور ان سے وابستہ اچھی یادیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صبر ایمان کی بنیاد ہے، سخاوت انسانیت کی زینت ہے اور سچائی حق کی زبان ہے۔

نرمی کامیابی کی چابی اور موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔

اصلی زندگی یہ نہیں کہ آپ زندگی میں کتنے خوش ہیں، بلکہ اصل زندگی یہ ہے کہ زندگی میں لوگ آپ سے کتنے خوش ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
صبر ایمان کی بنیاد ہے، سخاوت انسانیت کی زینت ہے اور سچائی حق کی زبان ہے۔

نرمی کامیابی کی چابی اور موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔

اصلی زندگی یہ نہیں کہ آپ زندگی میں کتنے خوش ہیں، بلکہ اصل زندگی یہ ہے کہ زندگی میں لوگ آپ سے کتنے خوش ہیں۔
بہت عمدہ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک دفعہ دو بہت گہرے دوست صحرا میں سفر کر رھے تھے.. راستے میں باتیں کرتے کرتے دونوں میں بحث ھوگئی اور بات اتنی بڑھی کہ ایک دوست نے دوسرے دوست کے منہ پہ تھپڑ دے مارا..
تھپڑ کھانے والا دوست بہت دکھی ھوا مگر کچھ بولے بغیر اس نے ریت پر لکھا.. "آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میرے منہ پہ تھپڑ مارا.."
چلتے چلتے ان کو ایک جھیل نظر آئی.. دونوں نے نہانے کا ارادہ کیا.. اچانک جس دوست کو تھپڑ پڑا تھا وہ جھیل کے بیچ دلدلی حصہ میں پھنس گیا مگر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اس نے اسے بچا لیا.. تب بچنے والے دوست نے پتھر پہ لکھا.. "آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میری زندگی بچا لی.."
یہ دیکھ کر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور بعد میں جان بچائی ' اس نے پوچھا.. "جب میں نے تم کو دکھ دیا تو تم نے ریت پر لکھا تھا اور جب جان بچائی تو تم نے پتھر پہ لکھا.. کیوں..؟"
پہلے دوست نے جواب دیا.. "جب کوئی آپ کو دکھی کرے یا تکلیف دے تو ھمیشہ اس کی وہ بات ریت پر لکھو تاکہ "درگذر کی ھوا" اسے مٹا دے لیکن جب بھی کوئی آپ کے ساتھ بھلائی کرے تو ھمیشہ اس کی اچھائی پتھر پہ نقش کرو تاکہ کوئی بھی اسے مٹا نہ سکے..!!"
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت ابراھیم(ع) کی عادت تھی کہ جب تک کوئی مہمان ان کے دسترخوان پر نہ بیٹھتا تو وہ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ایک دن ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا اور کہا کہ میرے ساتھ گھر چلوایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔بوڑھے شخص نے بھی ان کی دعوت قبول کر لی اور ان کے گھر چلا آیا۔
حضرت ابراھیم(ع) نے کہا کہ دسترخوان بچھایا جائے اور جب کھانا چن دیا گیا تو چونکہ وہ میزبان تھے تو رسم کے مطابق انہوں نے بسم اللہ الرحمان الرحیم کہتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اور کھانے کا آغاز کیا لیکن اس بوڑھے آدمی نے کچھ کہے بغیر کھانا شرو...ع کر دیا۔
حضرت ابراھیم سمجھ گئے کہ یہ شخص کافر ہے۔ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور بولے:
اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تو کافر ہے تو تجھے کبھی بھی دعوت نہ دیتا
بوڑھا آدمی بھی کھانا تناول کئے بغیر اپنے اونٹ پر بیٹھا اور منزل کی طرف روانہ ہو گیا
اسی وقت آواز آئی: " اے ابراھیم سو سال سے ہم اس آدمی کو کافر ہونے کے باوجود رزق دے رہے ہیں ۔تو ایک وقت کا کھانا بھی نہ دے سکا"
 

شمشاد

لائبریرین
شکر گزاری سے نعمتیں محفوظ اور دسترخوان کشادہ ہوتا ہے، سجدوں سے اللہ کی قرب نصیب ہوتا ہے، صدقہ سے بلائیں ٹل جاتی ہیں، توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ تعالٰی جس کو اپنا آپ یاد دلانا چاہتا ہے، اسے دکھ کا الیکڑک شاک دے کر اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
دکھ کی بھٹی سے نکل کر انسان دوسرے کے لیے نرم پڑ جاتا ہے۔ پھر اس سے نیک اعمال خودبخود اور بخوشی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ دکھ تو روحانیت کی سیڑھی ہے۔ اس پر صابر و شاکر ہی چڑھ سکتے ہیں۔ (بانو قدسیہ کی کتاب "دست بستہ" سے انتخاب)
 

شمشاد

لائبریرین
  1. طنز وہ تیر ہے، جو شہد میں بھگو کر بھی مارا جائے پھر بھی اس کی چبھن کم نہ ہو گی۔
  2. لوگ چاند تک پہنچنے کےلیے ہزاروں جتن کر لیں گے مگر دل تک پہنچنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے۔
  3. اگر آپ اپنے گھر کے باہر تختی پر عبارت لکھوا لیں کہ مجھ سے ملنے والے جھوٹ کے پاؤں اور غیبت کے چہرے باہر چھوڑ کر آئیں تو آپ سے ملنے کوئی نہیں آئے گا۔
  4. جو محبتیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں، وہ قرض کی طرح سود در سود چڑھتی چلی جاتی ہیں۔
  5. مسائل بڑھا کر وسائل کا رونا رونا، بے وقوفی ہے۔
  6. لفظ لکھنے پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا، احساس کی شدت انہیں پُر اثر بناتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
کئی سال قبل ایک واقعہ یا مزاقیہ تبصرہ کہیں پڑھا تھا؛ ایک یورپی شہری نے جھوٹ بولا جو عدالت میں ثابت ہو گیا۔ جج نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا ''کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟‘‘ (معاذ اللہ) لکھنے والے نے لکھ دیا مگر سچی بات یہ ہے کہ اسے کئی سال قبل پڑھتے ہوئے دل پر آرے چل گئے اور اب بھی یہ یاد آئے تو ازحد افسوس ہوتا ہے۔ جھوٹ اور دو نمبری ہمارے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے۔ اس میں اسلام دشمنوں کی کارروائی اپنی جگہ مگر ہمارے عوام و خواص اور رعایا و حکمران سبھی کا کردار بھی شامل ہے۔ وائے افسوس! اس نبی رحمتﷺ کی امت کی یہ زبوں حالی‘ جسے بدترین دشمنوں نے بھی ہمیشہ صادق و امین تسلیم کیا۔ جھوٹ دیگر قومیں بھی بولتی ہیں مگر یہ ہمارے ساتھ کیوں چپکا دیا گیا ہے؟ اس میں ان اسلام دشمن قوتوں کا بغض و عناد تو ہے ہی، مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم خود کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے سیاست دان، بیورو کریٹ، صنعتکار اور دیگر طبقات کی پہچان آج امانت و دیانت کے بجائے کرپشن، جھوٹ اور فریب کاری کیوں بن گئی ہے؟ منیر نیازیؔ نے شاید ایسی کسی کیفیت کا تذکرہ کیا ہے ؎
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
انسانی اخلاق و کردار
کا تعین انسان کے گفتار و معاملات سے ہوتاہے۔ جو انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے، وہ فاتح اور کامیاب رہتا ہے۔ وقتی مشکلات کے باوجود صدق و سچائی، انسان کو نجات و عافیت کی منزل پہ لے جاتی ہے۔ جھوٹا آدمی وقتی طور پر کچھ فوائد حاصل کر بھی لے تو اس کا جھوٹ بالآخر اسے ہلاکت کے گڑھے میں لے ڈوبتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ''اَلصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالْکَذِبُ یُہْلِک‘‘ سچ نجات کا ذریعہ اور جھوٹ باعثِ ہلاکت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے انسانِ کامل تھے۔ آپﷺ کی حیات طیبہ سراسر نور و ہدایت اور حسن و جمال کا مرقع تھی۔ آپؐ نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا حالانکہ جس معاشرے میں آپؐ نے آنکھ کھولی، اس کی بنیاد ہی جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکا دہی پر تھی۔ جھوٹ کو اگرچہ عیب جانا جاتا تھا مگر اس کا چلن اس قدر عام تھا کہ معیوب ہونے کے باوجود اسے انسان کی ذہانت و فطانت اور ہوشیاری و پرکاری تصور کیا جانے لگا تھا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اپنے دامن کو ہمیشہ اس آلودگی سے پاک صاف رکھا۔ بچپن اور لڑکپن میں بھی آپؐ کی یہ صفت اتنی معروف اور نمایاں ہو کر ضیا پاش ہوئی کہ معاشرے کا کوئی فرد نہ اس سے بے خبر رہا، نہ کبھی اس کا انکار اور نفی کر سکا۔ پوری قوم کے درمیان آپؐ عنفوانِ شباب ہی میں الصادق (یعنی سچا اور راست گو) کے لقب سے معروف ہوگئے تھے۔ آپؐ کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپؐ کا ستارہ چمکتا رہا۔ ’’اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدِنِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ بِعَدَدِ کُلِّ مَعْلُوْمٍ لَکَ، واللہ أعلم۔

منقول
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
حُسن کی زبان

خلیل جبران کہتے ہیں، "حُسن کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ یہ لفظوں اور ہونٹوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ یہ ایک غیر فانی زبان ہے اور کائنات کا ہر انسان اسے سمجھتا ہے۔ یہ آفاقی زبان جھیل کی مانند ہے، جو ہمیشہ خاموش رہتی ہے لیکن گنگناتی اور شور مچاتی ندیوں کو اپنی گہرائی میں اُتار لیتی ہے اور پھر وہی ازلی اور ابدی سکون چھا جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اطلاع تحفظ شوہراں

اگر کوئی خاتون نماز کے دوران اونچی آواز میں تلاوت شروع کر دے یا کھنکارے یا بلند آواز میں تکبیر اللہ اکبر کہے تو مندرجہ ذیل امور چیک کر لیجیے :

  • بچے کو جا کر دیکھ لیں۔
  • چولہے پر رکھی ہنڈیا میں چمچ چلا دیں۔
  • دروازہ چیک کر لیں، شاید کوئی باہر کھڑا ہے۔
  • ٹی وی کی آواز کم کر دیں۔
  • خاتون کا سیل فون سائلنٹ پر تھرتھلی مچا رہا ہے (وائبریٹ ہو رہا ہے)، چیک کر لیں کہ کس کی کال ہے۔
  • بارش یا تیز ہوا کی صورت میں فوراً باہر لٹکتے ہوئے کپڑے اتار کر اندر رکھ دیں۔

اگر ان میں سے کوئی بھی بات نہیں، تو سمجھ لیں کہ خاتون کو آپ کے ساتھ باہر جانا ہے۔ ان کی نماز ختم ہونے کا انتظار کریں ورنہ موصوفہ آپ کے کسی بھی جسمانی، روحانی یا نفسیاتی نقصان کی ذمہ دار نہیں ہوں گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
خصوصی پیشکس

ایک وسیع و عریض دل کرانے کے لیے خالی ہے، جس میں سچی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ وفا کا عادی اور اچھے دوستوں کا بہترین دوست یہ دل آنے والی ہر خوبصورت اور خوب سیرت شخصیت کو خوش آمدید کہتا ہے۔ نفرت کسی سے نہیں کرتا۔

ہاسٹل کی شاندار سہولت دستیاب ہے۔ مستقل رہائش کے خواہش مند رابطہ کریں۔ عارضی رہائش ان دنوں فراہم کرنا ممکن نہیں کیونکہ سابقہ عارضی رہائش پذیروں کی لاپرواہی کی وجہ سے اس کو اکثر شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیک جذبات رکھنے والے اور حقیقی محبت کے عادی لوگ جلد رابطہ کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
خوش اخلاقی

جس طرح ریت میں قطرے جذب ہو جاتے ہیں اور ان کا احساس بھی باقی نہیں رہتا، اسی طرح ہمارے چند جملے کسی کے دل میں نشتر بن کر اتر سکتے ہیں اور دوسروں کے دل میں دکھ کا احسااس پیدا کر سکتے ہیں۔

اسی لیے جب بھی کسی سے بات کرو تو یہ سوچ کر زبان سے الفاظ نکالو کہ جس طرح پانی کے چند قطرے ریت سے نہیں نکالے جا سکتے، اسی طرح ایک دفعہ منہ سے نکلی ہوئی بات کا اثر بھی دل سے دوبارہ نہیں نکالا جا سکتا۔ چنانچہ ہمیں کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ضرور غور کرنا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فرق صاف ظاہر ہے :

چراغ اور سراغ میں کیا فرق ہے؟
چراغ رگڑنے سے آج کل جن تو حاضر نہیں ہوتا، البتہ ایجنسیاں ہمارا سراغ لگا لیتی ہیں۔

ٹی وی اور بی وی میں فرق بیان کیجیے۔
دونوں ہی خاموش ہونے کا نام نہیں لیتے اور وقفے وقفے سے "بریکنگ نیوز" پیش کرتے رہتے ہیں۔

موبائل اور موبل آئل میں کیا فرق ہے؟
دونوں کا خرچہ انسان کی کمر توڑ دیتا ہے، جو کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔

بھکاری اور بنکاری میں کیا فرق ہے؟
دونوں کے لوٹنے کا ڈھنگ نرالا ہے اور دونوں کے پاس رقم محفوظ رہتی ہے۔

سفر اور ہمسفر میں کیا فرق ہے؟
سفر میں ڈاکوں سے لٹنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ ہمسفر ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ہی لوٹ لیتی ہے۔

بیوی کا میک اپ کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟
بیوی میک اپ نہ کرے تو برداشت نہیں ہوتی، میک اپ کرے تو میک اپ کا خرچہ برداشت نہیں ہوتا۔
 

سیما علی

لائبریرین
علم کے شہر کے کے دروازے سے اعلان ہُوا۔۔۔ صدق یقین کے ساتھ سوئے رہنا اُس نماز سے کہیں بہتر ہے جس کے پڑھنے میں یقین شامل نہ ہو۔
 

سیما علی

لائبریرین
خوب کیاخوب انتخاب ہے یہ
پُراثر،شوخ،لاجواب ہے یہ
سائباں میں جو نقطہ لے آئیں
پورا پھر وزن میں جناب ہے یہ
بے نقط جب ہمیں سناتے ہیں
زیرِ لب لفظ مسکراتے ہیں

شکیل احمدخان
 
Top