"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

میں سوکھا پیڑ ہوں لیکن ہرا بھرا کہنا
احوال آنکھ کا ، دل کا جدا جدا کہنا
نجانے کس طرح اب تجھ کو دیکھ پاؤں گا
ہزار مرحلے کٹھن ہیں، پھر بھی آ کہنا
تمہاری آس کو ٹوٹے تو ہو گئے برسوں
تمہاری یاد میں اب تک ہے رتجگا کہنا
تری تسکیں کی صورت تو ہو گئی ہوگی
مجھے ملا نہیں کوئی تجھ سا برملا کہنا
ملا کے ہاتھ الوداع توکہہ دیا لیکن
جو اس کے بعد ہوا سب ذرا ذرا کہنا
ہمیں تو تیرے غم نے ہی اجاڑ ڈالا تھا
مگر یہ تجھ کو کیا ھوا ھے اب بتا کہنا
کچھ ایسا عارضہ تھا لاحق سانس اٹکی تھی
بس اب کے زہر ہی سے مل گئی شفا کہنا
جھکا کے سر کو ذرا غور کرنا ماضی پہ
اٹھا کے ہاتھ میری قبر پر دعا کہنا
کچھ اس تضاد کے ہاتھوں بھی مر چلے عامر
لہو میں ہاتھ رنگنا اور خدا خدا کہنا
 

عمر سیف

محفلین
تاروں کی چلمنوں سے کوئی جھانکتا بھی ہو
اِس کائنات میں کوئی منظر نیا بھی ہو

اتنی سیاہ رات میں کس کو صدائیں دوں
ایسا چراغ دے جو کبھی بولتا بھی ہو

میں کس طرح یہ مان لوں فصلِ بہار
اِک پھول تو کھلے کوئی پتّہ ہرا بھی ہو

وہ میرے ساتھ چل سکے اس دھوپ چھاؤں میں
محبوب خوش مزاج ہو، غم آشنا بھی ہو

دُنیا بدل گئی ہے ابھی اور بدلے گی
کیسے کہوں کے آنکھ میں شرم و حیا بھی ہو

وہ چاند تو نہیں ہے مگر چاند کی طرح
اِن پتھروں کی اوٹ میں اب جھانکتا تو ہو
 

ماوراء

محفلین
سانس لینا بھی کیسی عادت ہے
جیے جانا بھی کیا روایت ہے
کوئی آہٹ نہیں بدن میں کہیں
کوئی سایہ نہیں ہے آنکھوں میں
پاؤں بےحِس ہیں، چلتے جاتے ہیں
اِک سفر ہے جو بہتا رہتا ہے
کتنے برسوں سے، کتنی صدیوں سے
جیے جاتے ہیں، جیے جاتے ہیں
عادتیں بھی عجیب ہوتی ہیں​
 

عمر سیف

محفلین
مہربانی۔ نوازش

بہت بےچین کر دیتی ہیں جب تنہائیاں دل کی
دَر و دیوار پر شکلیں بنا کر دیکھ لیتا ہوں​
 

سیفی

محفلین
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
اپنی ہستی کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا

بسا لینا کسی کو دل میں، دل کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا​
 

عمر سیف

محفلین
ہمیں ہر آنے والا زخم تازہ دے کے جاتا ہے
ہمارے چاند، سورج اور ستارے ایک جیسے ہیں
خُدایا ترے دم سے اپنا گھر اب تک سلامت ہے
وگرنہ دوست اور دشمن ہمارے ایک جیسے ہیں
 

سارہ خان

محفلین
اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے
وہ مسافر ہوں جو ہر موڑ پہ منزل مانگے

میری وسعت کی طلب نے مجھے محدود کیا
میں وہ دریا ہوں جو موجوں سے بھی ساحل مانگے

خواہش وصل کو سو رنگ کے مفہوم دئیے
بات آساں تھی مگر لفظ تو مشکل مانگے

دل کی ضد پر نہ خفا ہو میرے افلاک نشیں
دل تو پانی سے بھی عکس ماہ کامل مانگے

سانس میری تھی مگر اس سے طلب کی "محسن"
جیسے خیرات سخی سے کوئی سائل مانگے
 

ماوراء

محفلین
کھلی آنکھوں سے دیکھے سارے موسم
بس اب سونے کو بھی جی چاہتا ہے
اسے پانا بھی اپنی زندگی ہے
اسے کھونے کو بھی جی چاہتا ہے​
 

عمر سیف

محفلین
تجھے اظہارِ محبّت سے اگر نفرت ہے
تو نے ہونٹوں کو لرزنے سے تو روکا ہوتا

بےنیازی سے، مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تو نے گھبرا کے میرا نام نہ پوچھا ہوتا

یونہی بےوجہ بھٹکنے کی ضرورت کیا تھی
دمِ رخصت میں اگر یاد نہ آیا ہوتا

حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا
ورنہ کاجل تیری آنکھوں کا نہ پھیلا ہوتا

تجھ کو اظہارِ محبّت سے اگر نفرت ہے
 

ماوراء

محفلین
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں​
 

عمر سیف

محفلین
نوازش۔

شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے ۔۔۔​
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،


سیفی نے کہا:
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہو جانا
اپنی ہستی کسی کو سونپ کر مجبور ہو جانا

بسا لینا کسی کو دل میں، دل کا کلیجہ ہے
پہاڑوں کو تو بس آتا ہے جل کر طور ہو جانا​

سیفی بھائی، بہت خوب انتخاب ہے آپکالاجواب


والسلام
جاویداقبال
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top