میری منقبت

حسن نظامی

لائبریرین
محترمی جناب سخنور صاحب نے یہ منقبت حمد و نعت کے ذمرہ میں شامل کی ہے۔
میں یہاں اسے اصلاح کے لیے پیش کر رہاں ہوں۔ امید ہے رائے سے نوازا جائے گا۔

منقبت

زباں ہے گنگ مری اور ہاتھ لرزیدہ
اگر یہ دل ہے تپیدہ، تو چشم نم دیدہ

ثنائے لختِ دلِ مصطفیٰ ہے پیشِ نظر
تمام حرف مودب ہیں، لفظ گرویدہ

مثالِ بلبلِ بے تاب میں طواف کناں
وہ گل ستانِ محمد کا اک گلِ چیدہ

مثالِ حیدرِ صفدر شجاعتیں تیری
ہیں تیری تاب سے شامی تمام رم دیدہ

سوارِ دوشِ محمد حسین ابنِ علی
یہ کیا ستم ہے ہُوا خاک و خوں میں غلطیدہ

حسنؔ یزید پہ سب لعنتیں تمام ہوئیں
یہ بات اہلِ نظر سے نہیں ہے پوشیدہ

(حسن نظامی)
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت منقبت/سلام ہے حسن نظامی صاحب۔

سبھی اشعار خوبصورت ہیں اور عقیدت سے بھر پور، جزاک اللہ۔

فقط یہ کہ مطلع میں 'مگر' کا لفظ 'کَھل' رہا ہے، یعنی مگر کے استعمال سے دل دیگر عضو ہائے جسم سے استثنا پیدا کر رہا ہے حالانکہ اسے ان کا ساتھ دینا چاہیئے تھا۔

بہت داد آپ کیلیے اس خوبصورت تخلیق پر۔
 

الف عین

لائبریرین
اوہو تو یہ اپنے حسن نظامی کی ہی منقبت تھی!!!۔ واہ، اچھی منقبت ہے۔ وارث کی بات میں یقیناّ دم ہے۔"مگر" کی بجائے ’اگر‘ کر دیا جائے تو کچھ بہتر ہو جاتا ہے۔ کیا خیال ہے وارث؟
 

حسن نظامی

لائبریرین
فاتح کچھ کہیں گے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے انتظار ہے ۔
مگر کو اگر میں تبدیل کر دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
حسن نظامی صاحب! محبت ہے آپ کی کہ خاکسار کی رائے کے متعلق استفسار فرمایا۔ انتہائی عقیدت مندانہ اور خوبصورت ہدیہ ہے آپ کی جانب سے بلکہ آپ ہی کے الفاظ میں
ثنائے لختِ دلِ مصطفیٰ ہے پیشِ نظر
تمام حرف مودب ہیں، لفظ گرویدہ
مطلع کے مصرع ثانی میں میں نے وارث صاحب کے نکتہ کی تائید میں ان کا شکریہ ادا کیا تھا اور اعجاز صاحب کی تجویز کا بھی موید تھا۔ "اگر" سے بدلنے کے بعد مطلع مزید جان دار ہو گیا ہے۔
 
Top