میری ایک غزل-آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
میری کتاب" ذرا جو تم ٹھر جاتے" سے ایک غزل:

اور اب یہ بات دل بھی مانتا ہے
وہ میری دسترس سے ماورا ہے

چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں
ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے

مرے دل میں سمندر سا تلاطم
مری آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے

صدا کوئی سنائی دے تو کیسے
مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے

زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا
اور اب تو صرف اپنا سامنا ہے

میں چپ ہوں، اب اسے کیسے بتاؤں
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے
 

ناہید

محفلین
میں چپ ہوں، اب اسے کیسے بتاؤں
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے

واہ، بہت خوبصورت غزل ہے۔ اتنی زرخیز زمین میں اتنے کم شعر؟
لیکن یہ بھی عمدہ ہیں۔ داد!

شکریہ
ناہید
 

آصف شفیع

محفلین
میں چپ ہوں، اب اسے کیسے بتاؤں
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے

واہ، بہت خوبصورت غزل ہے۔ اتنی زرخیز زمین میں اتنے کم شعر؟
لیکن یہ بھی عمدہ ہیں۔ داد!

شکریہ
ناہید

شکریہ ناہید صاحبہ۔ جو شعر آپ نے کوٹ کیا وہ مجھے بھی پسند ہے۔ دادا کا بہت شکریہ۔
 
Top