میری اس شب کی کوئی سحر ہو گی کیا؟ - صفدر ہمدانی

فرحت کیانی

لائبریرین
سرخ خوں کے دیے میرے شہروں کی سڑکوں پہ جلنے لگے رات دن
وہ جو زندہ ہیں آج
انکو کل کی خبر کچھ نہیں
کون جانے کہ جو گھر سے نکلا ہے واپس پلٹ کر وہ گھر آئے گا؟
یا کوئی نامہ بر مرگِ یوسف کی تازہ خبر لائے گا
سرخ خوں کے دیئے
شہرِ بلقیس سے شہرِ آذر تلک
ایسے روشن ہیں جیسے شبِ وصل میں چاندنی کا حصار
ایسے تازہ ہیں جیسے لہو کی بہار
معتبر کچھ نہیں
ہاں مگر موت کا اعتبار
بھائی کو بھائی کی لاش کا انتظار
بہن بالوں کو کھولے ہوئے پیٹتی سرکو، بھائی پہ ہوتی نثار
سینہ زن بیٹیاں،مائیں دل چیر کر بین کرتی ہوئیں ، کر رہی ہیں پکار
باپ بیٹے کی میت اٹھانے کو ہے بے قرار
خون روتی ہوئی خوشبوئے لالہ زار
معتبر کچھ نہیں
ہاں مگر موت کا اعتبار
کوئی بتلاؤ تو
میرے شہروں کو کسی کی نظر کھاگئی
کس کی جنگ ہے جو بچوں کا میرے لہو پی کے تھکتی نہیں
مسجدوں میں بھی اب جان بچتی نہیں
کتنی قبروں کے منہ روز کھلتے ہیں اور بند ہوتے ہیں
تھک گئے رونے والے عزیزوں کو اتنا کہ روتے نہیں
موت کے منتظر جاگتے ہیں کچھ ایسے کہ سوتے نہیں
کون خود کْش ہیں یہ اور ایما پہ کس کے یہ سب ہورہا ہے بتائے کوئی
میری بینائی خود کْش کے حملے میں ہے کھو گئی
مجھ کو میرا ہی چہرہ دکھائے کوئی
عصرِ حاضر کی اس کربلا میں ہوں میں
مجھ کو میرا ہی نوحہ سنائے کوئی
موت کے سائے میں سانس لینا بھی اب جیسے مشروط ہے
کس کی جنگ کو اب ہم اپنی جنگ کہنے پر ایسے مجبور ہیں
لگ رہا ہے کہ اس شہر میں رہنے والے سبھی
ابنِ سقراط ہیں ابنِ منصور ہیں
کس کے گھر کی ہے یہ آگ ہم نے خود اپنے گھروں میں لگائی ہوئی
کوئی بتلاؤ تو کس جگہ اْگ رہے ہیں یہ خود کْش کہ رْکتے نہیں
کیسا حاکم ہے یہ
حکم کے سامنے جس کے جھکتے نہیں
کون ہے جو خدا کی طرح میرے شہروں کی قسمت کا مالک بنا ہے خود اپنے تئیں
کون ہے جس کی امداد پر ہم نے عزت کو اپنی نچھاور کیا
کون فرعون ہے دھڑکنیں دل کی ہیں جسکی مٹھی میں بند
کون ہے جس کی امداد پر حکمراں محوِ رقصاں ہیں دیوانہ وار
کون ہے جس کی قربت میں ملت فروشوں کا ہے ایک ہجوم
جس کے بوٹوں کے تلووں کے نیچے ہیں پسنے لگے
میری دھرتی کے بیچارے ماہ ونجوم
کون ہے جس کی امداد پر خوش ہیں سب حاکمانِ وطن
بے ضمیری کی میت کو کاندھوں پہ اپنے اٹھائے ہوئے
مرنے والوں کو یہ دے رہے ہیں پیام
ختم ہونے کو ہے اب صعوبت کا دن اور مصیبت کی شام
غیرتیں بِک گئیں
عزتیں لْٹ گئیں
بے ضمیری کے سودے پہ کیسا مبارک سلامت کا ایک شور ہے
کیسا ملت فروشوں کا یہ دور ہے
زورِ بازو پہ اپنے نہیں
غیر کی بزم سے ملنے والی اس ادنیٰ سی خیرات پر
دے رہے ہیں مبارک یہ اب قوم کو
انکو غیرت کے سودے پہ بھی فخر ہے
اور نازاں ہیں عزت کو بازار میں بیچ کر
بے حسی کی یہ کیسی ہوئی انتہا
کہہ رہے ہیں یہ فاقہ زدہ زرد چہروں سے اب برملا
ہو مبارک کہ اب دن بدل جائیں گے
کون جانے کہ اب اس شبِ غم کی کوئی سحر ہو گی کیا؟
میرے مرنے کی اسکو خبر ہو گی کیا؟
آہ نکلی ہے جو بااثر ہو گی کیا؟
میری اس شب کی کوئی سحر ہو گی کیا؟
میری اس شب کی کوئی سحر ہو گی کیا؟

کلام: صفدر ہمدانی
 
Top