سیما علی

لائبریرین
" میرا کراچی " کینیڈا میں مقیم ہمارے دوست ڈاکٹر اقبال سعید خان کی تصنیف ہے، دیار غیر میں جب وطن کی یاد آتی ہے تو وطن کی باتیں اور رطب_اللسانی بہت مزہ دیتی ہے، مگر دیار غیر میں آدمی سنائے بھی تو کسے ؟ ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ قلم سنبھال لے اور لکھنا شروع کردے، ایک ڈھارس سی بندھ جاتی ہے کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے لوگ اسے پڑھیں گے گویا لوگ ہمہ تن گوش ہیں سو وہ لکھتا چلا جاتا ہے مگر کیا لکھے اور کیا نہ لکھے

لکھ چکے ہم جا چکا خط گر یہی حالت رہی
ہاتھ میں آیا قلم اور شوق کا دفتر کھلا !

اقبال سعید صاحب نے بھی شوق کا دفتر کھولا ہے اور ان کے زہن کے نہال خانے میں محفوظ کراچی، جہاں سے نظر آیا ہے وہیں سے لکھنا شروع کردیا ہے بعد میں تانے بانے سلجھتے چلے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے کراچی کی معروف شخصیات کا ذکر دلچسپ معلومات کے ساتھ کیا ہے، قائد اعظم، مولانا ایدھی اور حکیم سعید صاحب کا تذکرہ تو معمول کی بات ہے مگر معروف صنعتکار ڈاکٹر اشتیاق بیگ، انکی شخصیت اور خدمات کا تذکرہ بہت ہی شاندار ہے ۔

اردو ڈاکٹر صاحب کی مادری زبان ہے، پاکستان میں اردو کی زبوں حالی انہیں گراں گزرتی ہے مگر اسکے مستقبل سے مایوس نہیں، میر منشی بہادر کی " اخلاق ہندی " اور گوجرانوالہ کے منشی محبوب عالم اور انکے اخبار " پیسہ کا ذکر خوب ہے ۔

تقریبات کے حوالے سے آج سے 40 سال قبل کے کراچی کی ان تقریبات کا ذکر ہے جنہیں مصنف بھول نہیں پائے، یہ تقریبات بر صغیر پاک و ہند میں اسلامی ثقافت اور اسلامی مہینوں کے حوالے سے مروج تھیں جن میں سے اکثر آگہی کے سبب متروک ہوچکی ہیں، بنیادی تہوار عید براءت و محرم کا ذکر خاندانی و تہذیبی روایات کے پس منظر میں کیا گیا ہے، ایک تقریب خالصتاً سماجی ہے یعنی گڈے گڑیا کی شادی، جو انتہائی دلچسپ پیرائے میں مذکور ہے اور اسکا سبب بھی بیان کردیا گیا ہے کہ یہ تعلق اور ملاقات کو قائم رکھنے کا ایک زریعہ اور ایک دوسرے کے گھر جانے کا ایک بہانہ تھا جو معاشرے میں ایثار و الفت کے فروغ کی بنیاد تھا ۔

دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا
میں باعث آشفتگی طبع جہاں ہوا۔ ! !

کتاب میں گلیوں بازاروں کے کردار ہیں جن میں گلی گلی گھوم کر کھیل تماشے دکھا کر روزی کمانے والے، سودا بیچنے والے جن میں منہارن کا ذکر دلچسپ ہے، بچوں کے لئے چیزیں بیچنے والے جن میں چورن چٹنیاں اور آگ چورن سب کچھ ہے، ویڈیو اور نیٹ سے قبل کے مشاغل جن میں صید اور قلمی دوستی کا ذکر ہے مگر فیس بک پر تنقید بیجا ہے ۔

چشم ماہ روشن دل ماہ شاد : شادی بیاہ کی تقریبات کا تذکرہ ہجرت کرکے آئی ایک ایسی برادری کا آئینہ بردار ہے جسکی نششت و برخاست میں تہذیبی روایات و شائستگی کی چاشنی ہے، ڈاکٹر صاحب نے ناتہ داری سے لیکر شادی خانہ آبادی تک کا جو نقشہ کھینچا ہے اس نے ہمارے لئے تو یادوں کے دیپ جلا دئیے مگر نئی نسل کے لئے حیرت کا سامان ضرور ہوگا ۔ ابتدا میں مکلاوہ کے ذکر کی چاشنی ہے تو انتہا آرسی مصحف کے خوبصورت ذکر سے مزین ہے، ساری تفصیلات ہیں مگر دولہا کے منہ میں پان کا بیڑا ٹھونسنے کا ذکر نہیں کہ یہ لو اب تم سے بات نہیں کی جائیگی نہ صرف آج بلکہ تا عمر ثانی، اب انہیں بولنا ہے اور آپکو سننا ہے اور کرارے پان کو کلے میں دبا کر ہاتھ نچا نچا کے ہوئی جاتی انکی گفتگو کا لطف لیتے ہوئے سر ہلائے چلے جانا ہے اور بلآخر سر تسلیم خم کرلینا ہے ۔

اگلے دو باب وہی ہیں جو ہونے چاہئیں یعنی گود بھرائی اور بچے کی ولادت ، جن میں شکرانہ، ناریل کے چاند، بی بی سیدہ کی نذر، مخانہ، گوند، اچھپانی اور چھلا نہائی جیسی گھریلو اصطلاحات اور گرہستنوں کا ذکر عہد رفتہ کا وہ باب ہے جو نئے زمانے اور مہنگائی کے ہاتھوں بند ہوگیا، گوند کی جگہ اب سپلیمنٹ 32 نے لے لی ہے ۔

کتاب میں کراچی اور اسکا قرب جوار مصنف کے ذاتی تجربات کے ساتھ مذکور ہے، مساجد، عمارتیں، ہسپتال، سینما گھر، تعلیمی ادارے، نائٹ کلب و میخانے، یہ سب کچھ بیان کرتے ہوئے انکا قلم انتھک روانی سے دوڑے چلا گیا ہے ۔

کراچی میں رہنے والی غیر مسلم کے اقوام کے باب میں بہت ساری اقوام کا ذکر ہے جسکی لپیٹ میں بہت ساری قومیں آگئی ہیں جن میں ہم میمن لوگ بھی شامل ہیں، کراچی کے سات صوفی اور حالات حاضرہ کا موازنہ بھی کتاب میں شامل ہے -

تعلیمی ذندگی کے ذکر میں جامعہ ملیہ جیسی مادر علمی کا سرسری تزکرہ گراں گزرتا ہے، عملی ذندگی، کینیڈا منتقلی و کینیڈا کے شب و روز اور کنیڈا کے فرسٹریشن سے آزاد معاشرے کا ذکر دلچسپ ہے ۔

بادشاہ شہاب الدین غوری کی 17 ویں پشت کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اقبال سعید خان نے " ملیر سے مونٹی کارلو " کے سفر کی داستان کے زریعے کتاب کا اختتامیہ ترتیب دیا ہے، جو انکے خاندانی پس منظر اور ذاتی و عملی ذندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، کتاب تحریر کرنے کی سعادت پر مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں ۔
 
Top